اکتوبر کے آغاز سے ہی ہیلووین کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ آج بروز 31 اکتوبر کو ہر سال دنیا بھر میں ہیلووین کا تہوار پھربور انداز سے منایا جاتا ہے۔
ہیلووین کے تہوار کے روز لوگ ذراؤنے لباس اور ماسک پہن کر دوسروں کو خوفزدہ کرنے نکلتے ہیں۔ اس تہوار کے دن لوگ اپنے گھروں کو ایک بھوتیا بنگلے کی شکل دیتے ہیں، انسانی ڈھانچوں کو گھروں کے سامنے لٹکاتے ہیں، خوفناک آوازوں والے میوزک سسٹم کا اہتمام کرتے ہیں اور خاص طور پر تراشے ہوئے کدو اور انکے اندر روشنی جلا کر اس تہوار کو مزید جاندار بناتے ہیں۔
علاوہ ازیں ننھے بچے بھوت بن کر آس پاس کے گھروں کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں اور انہیں یا تو کھانے کیلئے ٹافیاں دینا ضروری ہوتا ہے یا دوسری صورت میں ان کی شرارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہیلووین کا آغاز کب سے ہوا؟
درحقیقت ہیلووین کا اصل میں آغاز آئرلینڈ میں ہوا۔ تاہم دنیا کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے اس تہوار کو عالمی شکل میں تبدیل کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق مورخین کا کہنا ہے کہ اس تہوار کا آغاز 2000 سال قبل ہوا تھا۔
کدو کو تراش کر خوفناک شکل کیوں دی جاتی ہے؟
آئرلینڈ میں قحط پڑنے کی وجہ سے انویسویں صدی میں آئرش پناہ گزین دنیا کے دیگر ممالک منتقل ہونا شروع ہوئے اور یہیں کے لوگ ہیلووین کا تہوار ساتھ لائے تھے۔
جب یہ روایات امریکا پہنچیں تو وہاں انھیں جدید شکل دے دی گئی۔ اس سے قبل آئرلینڈ میں کدو کو کاٹ کر خوفناک چہرے نہیں بنائے جاتے تھے بلکہ پہلے ان کی جگہ شلجم کا استعمال ہوتا تھا تاہم بعد میں شلجم کی جگہ کدو نے لے لی۔
ہیلووین کی پیدائش کے حوالے سے سب سے اہم دعویٰ آئرلینڈ کے علاقے کاؤنٹی میتھ کے لوگ کرتے ہیں، یہاں دا ہِل آف وارڈ نامی عجیب مقام واقع ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں ساؤن کے جشن کی شروعات ہوئی تھی۔ ساؤن وہ وقت ہوتا جب فصلوں کی کٹائی مکمل ہو رہی ہوتی ہے اور خزاں کے بعد سردیوں کا موسم شروع ہو رہا ہوتا ہے۔
ساؤن کے جشن کے دوران کیلٹک لوگ آگ جلایا کتے اور عالم ارواح سے آنے والی روحوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ تہوار پورے آئرلینڈ میں اسی طرح منایا جاتا ہے مگر کاؤنٹی میتھ میں جلایا جانے والا آتش کدہ حجم کے اعتبار سے بڑا ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف ڈبلن سے منسلک ماہرِ آثار قدیمہ ڈاکٹر سٹیو ڈیوس کہتے ہیں کہ آئرلینڈ میں ایسے چند ہی مقامات جن کا موازنہ ہم ہِل آف وارڈ سے کر سکتے ہیں۔ یہ ایک جادوئی اور پُراسرار جگہ ہے۔
ان کے مطابق انھیں اس مقام پر ایسے ثبوت ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آگ جلائی جاتی تھی۔ اس جگہ کو آگ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ قرونِ وسطیٰ میں لکھی گئی تحریروں سے بھی یہاں آگ کا سالانہ تہوار منعقد ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔