کراچی آرٹس کونسل میں ورلڈ کلچر فیسٹیول اپنی آب و تاب سے جاری ہے، فیسٹیول میں فلسطینی فنکاروں نے بھی حصہ لیا، فلسطینی ہدایتکارہ کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج ہر ہفتے حملے کرتی ہے، بمباری اور بچوں کا قتل کرتی ہے۔
ورلڈ کلچر فیسٹیول کے موقع پر پاکستان آنے والی فلسطینی ہدایتکارہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا نیا ڈرامہ ”طوباسی کی زندگی“ فلسطینی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔ ان کے بقول، یہ ڈرامہ فلسطینی عوام کے اپنے حقوق کے حصول کے لیے مختلف طریقوں، جیسے کہ مسلح اور ثقافتی مزاحمت، کو پیش کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈرامہ کسی بھی طریقے کو دوسرے پر فوقیت نہیں دیتا بلکہ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنی آزادی کے مختلف راستے تلاش کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی عوام بخوبی جانتے ہیں کہ فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے ظلم جاری ہے جسے برطانیہ، امریکہ اور یورپی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مغربی کنارے اور 1948 کے علاقوں میں فلسطینی عوام کو مسلسل نسل پرستی اور فوجی قبضے کا سامنا ہے۔ جنین کے مہاجر کیمپ میں، جہاں ڈرامے کا مرکزی کردار بھی رہتا ہے، اسرائیلی فوج ہر ہفتے حملے کرتی ہے، بمباری اور بچوں کا قتل کرتی ہے۔
ہدایتکارہ نے بتایا کہ اسرائیل میں فلسطینی صحافیوں اور فنکاروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ ان کی آواز کو دبایا جا سکے۔ ان کے تھیٹر کے پروڈیوسر کو قید کر دیا گیا ہے، اور شریک بانی کو قتل کر دیا گیا ہے، جبکہ دیگر ساتھی بھی مسلسل ظلم و ستم کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یورپ اور امریکہ میں بھی فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے پر سخت پابندیاں ہیں، یہاں تک کہ فلسطینی پرچم لہرانے پر بھی پولیس تشدد کرتی ہے۔
انہوں نے پاکستان میں اپنے تجربے کو خوشگوار اور مثبت قرار دیا اور کہا کہ پاکستانی عوام کی جانب سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے سننا اور سمجھنا ایک خوش آئند اور تازگی بخش احساس ہے۔
ڈرامے ”And Here I Am“ میں ایک دل چسپ داستان پیش کی جس میں حقیقت اور تخیل، المیے اور مزاح کا خوبصورت امتزاج دکھایا گیا۔ یہ داستان طوباسی کی ذاتی زندگی کے تجربات اور فلسطینیوں کی مشترکہ جدوجہد پر مبنی ہے، جس میں انہوں نے اپنی نوجوانی سے جوانی کے سفر کی عکاسی کی ہے۔ ڈرامے میں ان کے کردار نے فلسطینیوں کی زندگی میں موجود سختیوں اور ان کے عزم کو اجاگر کیا ہے۔