پشاور کے علاقے تاج آباد کی گلی نمبر 10 میں درخت کے نیچے بیٹھے بچے بے تابی سے ایک موٹر سائیکل سوار کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک ایسا موٹر سائیکل سوار جو انہیں قِصّے کہانیوں کی دنیا میں لے جائے۔

اچانک گلی کے نکڑ پر محمد عامر کی موٹر سائیکل نظر ائی جس کی ایک جھلک دیکھتے ہی بچے خوشی سے جھوم اُٹھے۔

عامر کی یہ بائیک کوئی عام سی موٹر سائیکل نہیں بلکہ یہ ایک موبائل لائبریری تھی۔

عامر کے آتے ہی بچے اُس موبائل لائبریری کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے جو موٹر سائیکل کے پیچھے بنائی گئی تھی۔

ڈبا نما اس موبائل لائبریری کو باہر سے خوبصورت رنگ برنگی پینٹنگز سے سجایا گیا تھا۔

عامر نے اپنی موٹر سائیکل پارک کی اوراُس کے ساتھ آئے ایک دوسرے رضاکار نے گلی میں لگے پیپل کے درخت کی چھاؤں میں پلاسٹک کی ایک دری بچھائی جس پر سب بچے قطاریں بنا کر بیٹھ گئے۔ 30 کے قریب بچے دری پر بیٹھے عامر کی زبانی کہانیاں سننے کے لئے بےتاب تھے۔

عامر نے موبائل لائبریری میں موجود بہت سی کہانیوں میں سے ایک دلچسپ کہانی کا انتخاب کیا اور بچوں کی طرف بڑھا۔

بچوں نے عامر کو پرجوش طریقے سے سلام کیا جس کے بعد عامر نے سب بچوں سے اُن کا حال پوچھا اور کچھ گپ شپ لگائی۔

اب عامر اُن کو آدمی اور لُومڑی کی دلچسپ اور سبق آموز کہانی سنانے لگا۔

کہانی شروع ہوتے ہی سب بچے خاموش ہو گئے اور غور سے عامر کو سننے لگے۔ عامر اُن کو آسان الفاظ اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں یہ کہانی سنا رہا تھا۔

یہ ایک بہت خوبصورت منظر تھا، جب دُھول مٹی سے اٹے کپڑوں میں ملبوس معصوم بچے دری پر بیٹھے غور سے کہانی سن رہے تھے۔

یہ کمسن بچے کہانی سے لطف اٹھانے کے ساتھ ساتھ عامر سے سوالات بھی کرتے رہے۔

کہانی کے اختتام پر عامر نے بچوں کو کہانی کا نتیجہ بتاتے ہوئے کہا کہ بچوں کو انجان لوگوں کی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی انجان افراد کے ساتھ کہیں جانا چاہیے، کیونکہ یہ بچوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

کہانی کے اختتام پر بچے بے حد خوش دکھائی دیئے۔

کہانی ختم ہونے پر کچھ بچے اُٹھے اور کھیل کود میں مصروف ہو گئے جبکہ بچیاں آپس میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں۔

2021 سے شروع کی گئی لائبریری میں 330 سے زائد کتابیں ۔۔۔۔

سماجی کارکن عامر نے آج ڈیجٹل کی نمائندہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اُس محروم طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے ہیں، جن کے علاقوں میں سکول نہیں ہیں اور جوغربت کی وجہ سے سکول جا بھی نہیں جا سکتے۔ ان بچوں کے لئے ”کتاب دوست“ آرگنائزیشن نے موبائل لائبریری کا قدم اٹھایا۔

عامر کے مطابق یہ عمل 2021 سے جاری ہے جس میں وہ ہر ہفتے پشاور کے ایسے علاقوں میں اپنی موبائل لائبریری لے کر جاتے ہیں جہاں بچے سکول نہیں جا سکتے۔ چونکہ ہر جگہ کتابیں پہنچانا ممکن نہیں ہوتا تو اس لئے ان کے ادارے نے مسئلے کا ایک خوبصورت حل نکالا اور موٹرسائیکل پر ایک لائبریری بنا دی چونکہ موٹرسائیکل تنگ گلیوں میں بھی آرام سے چلا جاتا ہے۔ لہٰذا موٹر سائیکل کے پیچھے لائبریری میں اردو اور انگریزی کی کہانیوں، پہیلیوں اور اسلامی واقعات کے متعلق بہت سی کتابیں رکھ دی گئیں اور یوں ایک موبائل لائبریری کے زریعے ایسے بچوں تک پہنچنے کی کوشش کی گئی جن کے لئے عام حالات میں کہانی کی کتابوں تک پہنچنا مشکل تھا۔

عامر نے بتایا کہ ایسے بچے جو کہانی پڑھ سکتے ہیں انہیں یہ کتابیں گھر کے لئے بھی دی جاتی ہیں اور اگلے ہفتے اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ اُنہوں نے کتاب پڑھی یا نہیں۔ ایسے ہی کچھ بچوں میں سدیس اور کائنات بھی شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ یہ کہانیاں بہت شوق سے سنتے ہیں اور گھر جا کر اپنے والدین کو بھی سناتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ اُن کے والدین اس بات سے بہت خوش ہیں کہ اُن کے بچوں کو پڑھایا جارہا ہے۔

عامر نے بتایا کہ اس پورے عمل کا مقصد 8 سے 12 سال کے بچوں کے دلوں میں کتابیں پڑھنے اور سکول جانے کا شوق اُجاگر کرنا ہے۔

عامر کا کہنا تھا کہ ان کی موبائل لائبریری میں تقریباً 300 سے زائد کتابیں ہیں جن میں کچھ کتابیں کتاب دوست آرگنائزیشن نے خریدی ہیں جبکہ کچھ رضا کاروں کی جانب سے عطیہ کی گئی ہیں۔

دو موبائل لائبریروں کا مقصد کتب بینی کا رجحان پیدا کرنا تھا۔۔۔۔

کتاب دوست آرگنائزیشن کی بانی بشریٰ رحیم نے بتایا کہ 2019 میں انہوں نے کتب بینی میں کم ہوتے رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے ”کتاب دوست“ تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا مقصد بچوں کو کتابوں کے قریب لانا تھا۔

ان کے مطابق تعلیم کا رجحان بچپن سے ہی شروع کیا جا سکتا ہے، اگر اس عمر میں بچوں کو کتابیں فراہم کی جائیں اور انہیں پڑھایا جائے، تو ان کا کتابوں کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ قائم ہو سکتا ہے۔

بشریٰ رحیم نے 2021 میں پشاور اور ضم شدہ اضلاع میں دو موبائل لائبریریاں قائم کیں۔

ڈاکٹر بشریٰ نے بتایا کہ نو جوانوں اور بزرگ رضا کاروں کی ایک بڑی تعداد کتاب دوست سے منسلک ہے۔ یہ رضا کار مختلف سکولوں میں جا کر سیشنز کے ذریعے بچوں کو اچھی اچھی کتابیں پڑھاتے اور آداب سکھاتے ہیں۔

یُوں پشاور کے گلی کوچوں میں پھرنے والی یہ موبائل لائبریری بچوں کو کتابوں کی طرف راغب کرنے جبکہ رضاکاروں اور معاشرے کو آگاہی کے خوبصورت تعلق میں باندھنے کا زریعہ بن گئی ہے۔

More

Comments are closed on this story.