پیدائش سے لے کر 59 دن کی عمر تک کے بچوں میں سیپسز یا خطرناک انفیکشن کا مؤثر علاج اب اسپتال کے بجائے گھر یا قریبی مراکز پر بھی ممکن ہو گیا ہے جو اسپتال میں داخلے کے اخراجات کے مقابلے میں کئی گنا سستا ہوگا، یہ بات پی ایس بی آئی آگاہی سیمینار میں ماہرین نے بتائی۔

ماہرین نے بتایا کہ نوزائیدہ بچوں میں بخار، تیز سانس لینا، پسلیوں کا تیز چلنا، دودھ نہ پینا، جسمانی درجہ حرارت میں کمی اور سستی جیسے علامات ظاہر ہونے پر انہیں فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم پاکستان میں کئی خاندان اسپتال کے اخراجات، دوری اور سماجی رکاوٹوں کے باعث اسپتال میں داخلے سے گریز کرتے ہیں۔

آغا خان یونیورسٹی اور دیگر اداروں کے اشتراک سے عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے افریقہ اور ایشیا میں دو بڑے تحقیقی مطالعات کیے گئے، جن میں مجموعی طور پر 12 ہزار سے زائد بچوں کو شامل کیا گیا۔ پاکستان سے 2 ہزار سے زائد بچوں کا ڈیٹا ان مطالعات میں شامل ہوا جن میں کراچی کے چار اسپتالوں نے شرکت کی۔

 PHOTO CREDIT AKU Paediatrics
PHOTO CREDIT AKU Paediatrics

تحقیقات میں یہ نتیجہ سامنے آیا کہ مخصوص علامات والے بچوں کا گھر یا قریبی مرکز میں دیا گیا علاج اسپتال میں علاج جتنا ہی محفوظ اور مؤثر ثابت ہوا۔ علاج کے دوران سختی سے طبی اصولوں پر عمل کیا گیا اور 95 فیصد بچوں کو جینٹامائسن اور اموکسسلین کے ساتھ مکمل آؤٹ پیشنٹ علاج فراہم کیا گیا۔ مضر اثرات کی شرح انتہائی کم رہی اور گھر میں علاج کروانے والے بچوں میں اموات کی شرح اسپتالوں کی شرح کے برابر یا اس سے بھی کم رہی۔

کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اور موبائل ہیلتھ ٹیکنالوجی کے ذریعے مؤثر فالو اپ سسٹم بھی قائم کیا گیا تاکہ بچوں کی حالت پر مسلسل نظر رکھی جا سکے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس طریقہ کار کو مرحلہ وار اور احتیاط سے نافذ کیا جائے تو اس سے نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے اور بنیادی صحت کی خدمات کو مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے، جس سے لاکھوں غریب خاندانوں کو فائدہ ہوگا۔

More

Comments
1000 characters