آج کے دور میں فریج کے بغیر برف کا تصور ممکن نہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بابر، جہانگیر، شاہجہان اور اورنگزیب جیسے مغل بادشاہ گرمیوں میں آئس کریم اور ٹھنڈے مشروبات پیتے تھے؟ وہ بھی اس وقت جب نہ بجلی تھی اور نہ ہی فریج۔

مغل بادشاہ اپنے وقت کے نہایت ذہین اور شوقین حکمران تھے۔ ان کی حکومت کے دوران نہ صرف شاندار عمارتیں بنیں بلکہ لذیذ مغلائی کھانے اور منفرد طور طریقے بھی عام ہوئے۔ ان میں سے ایک تھا گرمیوں میں برف حاصل کرنا۔

مغل دور میں برف ہمالیہ کے علاقوں جیسے کشمیر، ہماچل پردیش اور گڑھوال سے حاصل کی جاتی تھی، جہاں سردیوں میں جھیلیں اور ندی نالے جم جاتے تھے۔

لوگ سردیوں میں ان جمی ہوئی جگہوں سے برف جمع کرتے اور پھر خاص طریقے سے اسے گرمیوں تک محفوظ رکھتے۔

مغل دور میں برف کو خاص راستوں سے دہلی، آگرہ اور لاہور تک لایا جاتا تھا۔

مثال کے طور پر، ہمایوں اور اکبر کے دور میں یومنا دریا کے کنارے مخصوص راستوں سے برف لائی جاتی تھی۔

یہ کام آب دار نامی ماہر افراد کرتے تھے جو دربار کے لیے پانی، برف اور ٹھنڈی اشیاء کی دیکھ بھال کرتے تھے۔

برف کو محفوظ رکھنے کےلیے مغل بادشاہوں نے زمین کے نیچے خاص تہہ خانوں یا برف خانوں کی تعمیر کروائی تھی۔

یہ گہرے اور ٹھنڈے کمرے ہوتے تھے جن میں برف کو راکھ یا موٹے کپڑے میں لپیٹ کر رکھا جاتا، تاکہ وہ زیادہ دیر تک نہ پگھلے۔

مشہور مغل بادشاہ جہانگیر نے اپنی کتاب تزکِ جہانگیری میں برف کے استعمال اور اس کی اہمیت کا ذکر بھی کیا ہے۔

قدیم ہندوستان میں برف بنانے کا ایک اور مقامی طریقہ یہ تھا کہ سردیوں کی راتوں میں پانی کو پتلے برتنوں میں رکھ کر کھلے آسمان کے نیچے چھوڑ دیا جاتا، جہاں شدید ٹھنڈ کی وجہ سے وہ جم جاتا۔

مغل بادشاہوں کی یہ دلچسپ ایجاد اور انتظام آج بھی ہمیں حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ انہوں نے بغیر کسی جدید ٹیکنالوجی کے بھی کس طرح اپنی زندگی کو آسائشوں سے بھر رکھا تھا۔

More

Comments
1000 characters