پاکستان کے معروف اور متنازع یوٹیوبر رجب بٹ ایک بار پھر خبروں کی زینت بنے ہیں، اس بار وجہ ہے اُن کا وطن واپسی سے متعلق بڑا اعلان۔ دبئی میں قیام پذیر رجب بٹ نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں اُنہوں نے اپنی حالیہ زندگی، مستقبل کے منصوبوں اور پاکستان واپس آنے کے بارے میں کھل کر گفتگو کی۔
رجب بٹ نے یوٹیوب کی دنیا میں قدم رکھ کر بہت جلد مقبولیت حاصل کی۔ ان کے فیملی وی لاگز اور بے باک انداز نے جہاں انہیں شہرت دلائی، وہیں کئی بار تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ ان پر توہین مذہب کے الزامات بھی عائد کیے گئے جنہوں نے انہیں قانونی مسائل میں الجھا دیا۔
وطن واپسی کی خواہش، مگر اجازت کی منتظر
نادر علی کی پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے رجب بٹ نے ایک سوال کے جواب میں کہا، ’انشا اللہ آؤں گا، کیوں نہیں آؤں گا، میرا ملک ہے میں ضرور واپس آؤں گا۔‘ تاہم، انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ابھی حالات سازگار نہیں، اور انہیں کچھ ’ہائی کمانڈز‘ سے اجازت درکار ہے۔
رجب بٹ کے دفاع میں ڈکی بھائی بول اٹھے
توہین مذہب کا الزام، رجب بٹ کی وضاحت
توہینِ مذہب کے حوالے سے رجب بٹ کا کہنا تھا،’میں نے ایسا کچھ نہیں کہا یا کیا، مسلمان خاندان سے ہوں، ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘ انہوں نے تسلیم کیا کہ اگر کسی کو ان کے الفاظ سے دکھ پہنچا تو وہ اللہ کے گھر بیٹھ کر بھی معذرت کر چکے ہیں، اور اب بھی دل سے معافی مانگتے ہیں۔
رجب بٹ نے ایک اہم نکتہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، ’یہ معذرت اس لیے نہیں کہ مجھے پاکستان آنے دیا جائے، بلکہ اگر میں مجرم ہوں تو قانون سزا دے گا، اور اگر بے گناہ ہوں تو بری کر دے گا۔‘ ان کا یہ موقف کئی حلقوں میں قابلِ تعریف سمجھا جا رہا ہے کہ وہ قانون کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہیں۔
پرفیوم ’295‘ اور سوشل میڈیا پر ردِعمل
حال ہی میں رجب بٹ نے ایک ویڈیو میں نئے پرفیوم ’295‘ کی لانچنگ کا اعلان کیا، جو پاکستان پینل کوڈ کی توہین مذہب کی دفعہ کا حوالہ دیتا ہے۔ اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، اور بالآخر اسے ڈیلیٹ کر دیا گیا۔
رجب بٹ نے ماں کے نام پر ایک اور تنازعہ کھڑا کردیا
رجب بٹ کا کہنا ہے کہ وہ قطر اور پھر لندن جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جہاں وہ اپنے اہلِ خانہ کو بھی بلانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق، وطن واپسی تبھی ممکن ہوگی جب حالات بہتر ہوں گے اور اجازت ملے گی۔
رجب بٹ کی حالیہ گفتگو نے ایک بار پھر عوامی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔ ان کے چاہنے والے جہاں اُن کی واپسی کے منتظر ہیں، وہیں تنقید کرنے والے اب بھی اُن سے وضاحتوں کے متقاضی ہیں۔