1982 میں بالی وڈ کی تاریخ کا ایک ایسا سانحہ پیش آیا جو آج تک لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے جس نے پوری انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا۔
یہ حادثہ سپرہٹ فلم قلی کی شوٹنگ کے دوران پیش آیا جب امیتابھ بچن ایک ایکشن سین کے دوران حادثاتی طور پر زخمی ہو گئے اور زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلارہے۔
نواب سیف کا نیا پرتعیش گھر قطر! کیا ممبئی کو خیر باد کہہ دیا؟
اس حادثے نے پورے بھارت اور دنیا بھر میں موجود امیتابھ کے مداحوں کو گہری پریشانی میں ڈال دیا، اور اسپتال کے باہر لوگوں کا جم غفیر ان کی صحتیابی کے لیے دعائیں کرتا رہا۔ یہاں تک کہ بھارتی وزیراعظم نے غیر ملکی دورہ مختصر کر کے وطن واپس آ کر امیتابھ کی عیادت کی۔
اس وقت پورے ہندوستان کی توجہ امیتابھ بچن کی حالت پر مرکوز ہو گئی تھی، اور میڈیا ہر لمحے کی تازہ ترین اطلاعات فراہم کر رہا تھا۔
باکس آفس پر ناکام فلم ”سکندر“کےحذف شدہ منظر نے شائقین کو چونکا دیا
وہ حادثہ جس نے امیتابھ کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا، اس کے اثرات پونیت اسر کے کریئر پر بہت گہرے پڑے۔
پونیت اسر نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں اس تکلیف دہ وقت کو یاد کیا اور بتایا کہ اس حادثے کے بعد لوگ ان سے ڈرنے لگے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’لوگ میرے بارے میں عجیب و غریب باتیں بنانے لگے تھے، وہ کہتے تھے کہ اگر ایک ہلکا سا پنچ امیتابھ کو اتنا زخمی کر سکتا ہے تو سوچو اگر پوری طاقت سے مارا جائے تو کیا ہوگا۔‘
ان غلط فہمیوں کے باعث پونیت کو چھ سال تک کام نہیں ملا، حالانکہ وہ اس وقت ایک جانے پہچانے اداکار تھے۔
پونیت نے اس مشکل دور کو ایک امتحان کے طور پر لیا اور بتایا کہ اس وقت نے ان کی شخصیت کو سنوارا۔ ان کا کہنا تھا، ’میں نے سیکھا کہ زندگی کے ہر مرحلے میں کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ میں نے صبر، عاجزی، اور خود پر یقین رکھنا سیکھا۔ ایک پل میں میری زندگی بدل گئی۔‘
وہ اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ وہ 21 سال کا نوجوان جو امیتابھ بچن کے مقابلے میں اہم ولن کے طور پر منتخب کیا گیا تھا، اس کے بعد صرف ’فائٹر‘ یا ولن کے کردار ہی ملنے لگے۔
پونیت اسر، جو اب مہابھارت میں ’دریودھن‘ کے کردار کے لیے مشہور ہیں، کہتے ہیں کہ وہ تکلیف دہ دور ان کے لیے ایک پختہ انسان بننے کی وجہ بنا۔
ان کا کہنا تھا کہ معاشی ضروریات کے باعث انہوں نے جو بھی کردار ملے، خوشی خوشی قبول کر لیے تاکہ اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں۔
دوسری جانب، امیتابھ بچن نے اس حادثے کے بارے میں اپنی ایک بلاگ پوسٹ میں بتایا کہ وہ اس حالت میں چلے گئے تھے کہ ان کا دماغ بالکل کام نہیں کر رہا تھا۔
ڈاکٹروں نے انہیں کلینیکی طور پر مردہ قرار دے دیا تھا، لیکن ڈاکٹر واڈیا نے آخری کوشش کے طور پر انہیں کارٹیسون اور ایڈرینالین کے انجیکشنز دیے، اور تقریباً 40 ایمپولز کے بعد وہ دوبارہ ہوش میں آ گئے۔
یہ سانحہ نہ صرف امیتابھ بچن کے لیے زندگی اور موت کا سوال تھا، بلکہ پونیت اسر کے لیے بھی ایک ایسے وقت کا آغاز تھا جس نے ان کی زندگی کے رخ کو بدل کر رکھ دیا۔