چیچک (چکن پاکس) ایک عام مگر تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے جو ”ویریسیلا زوسٹر وائرس“ کے ذریعے پھیلتی ہے۔ اس بیماری میں جسم پر سرخ دھبے یا دانے نمودار ہوتے ہیں، جو جلد ہی ایک انسان سے دوسرے کو منتقل ہو سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایسے مریض کے قریب آ جائے جسے چیچک ہو، تو اُس کے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
بھارت میں اس بیماری کو عام طور پر ’ماتا‘ یا ’ماتا کا آنا‘ کہا جاتا ہے۔ وہاں کے لوگ اس بیماری کو ایک عذاب کی شکل سمجھتے ہیں اور خصوصی پوجا پاٹ اور رسومات کے ذریعے اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن آخر چیچک کو ’ماتا‘ کیوں کہا جاتا ہے؟
اس کا جواب ایک قدیم دیومالائی کہانی میں چھپا ہے۔
بھارت میں چیچک کو ”شیِتلا ماتا“ سے جوڑا جاتا ہے، جو دراصل ہندو دیوی ”دُرگا“ کا ایک روپ ہے۔
ہندو مذہب میں مانا جاتا ہے کہ شیِتلا ماتا بیماریوں کو دور کرنے والی دیوی ہے۔ اس کے ایک ہاتھ میں جھاڑو اور دوسرے میں مقدس پانی سے بھرا ہوا برتن ہوتا ہے، جس سے وہ بیماریوں کو ختم کرتی ہے۔
ہندو تاریخ کی ایک مشہور کہانی کے مطابق، ایک بار ”جوارا سور“ نامی ایک راکشس (شیطان) نمودار ہوا جو بچوں کو تیز بخار دے کر ان کی جان لے لیتا تھا۔ تب ”کاتیاینی ماتا“ نے شیِتلا ماتا کا روپ دھارا اور خود بچوں کے جسم میں داخل ہو گئی۔ ان کے داخل ہوتے ہی بچوں کے جسم پر دانے نکل آئے، لیکن یہ دانے اس بات کا ثبوت تھے کہ ماں ان کے اندر آ چکی ہے اور بیماری کو اندر سے ختم کر رہی ہے۔
اسی عقیدے کی بنیاد پر بھارت میں آج بھی لوگ چیچک کو عذاب یا امتحان سمجھتے ہیں اور مرض کو ’ماتا کا آنا‘ کہتے ہیں۔ مریض کو چھونا، تیز روشنی دکھانا یا دوا دینا بعض علاقوں میں ممنوع ہوتا ہے، اور صرف مخصوص روایتی پوجا پاٹ اور ٹھنڈے پانی سے ہی علاج کیا جاتا ہے۔
یہ روایت آج کے سائنسی دور میں کسی کو عجیب لگ سکتی ہے، مگر بھارت کے بہت سے علاقوں میں یہ عقیدہ آج بھی زندہ ہے اور لوگوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔