دوسری جنگ عظیم کا انوکھا فریب: جب امریکہ نے نازیوں کو ربڑ کے ٹینکوں اور نقلی ریڈیو سے دھوکہ دیا
1944 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران، امریکا نے نازی جرمنی کو ایک ایسی چال میں الجھا دیا جسے تاریخ کی سب سے شاندار جنگی چالاکی قرار دیا جاتا ہے۔ اس منصوبے کو ”گوسٹ آرمی“ (Ghost Army) کا نام دیا گیا، جو حقیقت میں ایک فرضی فوج تھی، مگر نازیوں کو یہ یقین دلایا گیا کہ وہ ایک بڑی، مکمل امریکی فوج کے سامنے ہیں۔
یہ جعلی فوج ربڑ سے بنے انفلیٹ ایبل (ہوا سے بھرے) ٹینکوں، نقلی ریڈیو سگنلز، مصنوعی قدموں کی آوازیں اور آواز کے طاقتور نظام کے ذریعے دشمن کو دھوکہ دینے میں کامیاب رہی۔ گوسٹ آرمی کا مقصد نازی انٹیلیجنس کو گمراہ کرنا اور انہیں اصل امریکی افواج کی نقل و حرکت سے لاعلم رکھنا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ”فوج“ کے ارکان تجربہ کار سپاہی نہیں تھے، بلکہ فنکار، انجینئر، گرافک ڈیزائنر، اداکار اور موسیقار تھے۔ ان افراد نے نازیوں کو یہ باور کرانے میں کامیابی حاصل کی کہ امریکا ایک بڑے حملے کی تیاری کر رہا ہے، حالانکہ اصل حملہ کسی اور مقام پر ہو رہا ہوتا۔
گوسٹ آرمی کی سب سے بڑی کامیابی ”آپریشن فورٹیٹیوڈ“ (Operation Fortitude) تھی، جس کے تحت نازیوں کو یہ تاثر دیا گیا کہ اتحادی افواج کا اصل حملہ فرانس کے شہر کلے (Calais) پر ہوگا۔ نازیوں نے اپنے دستے اس علاقے میں منتقل کر دیے، جبکہ اصل حملہ نارمنڈی (Normandy) پر کیا گیا، جسے ڈی ڈے (D-Day) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ پورا منصوبہ اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ نازی افواج جنگ کے اختتام تک دھوکہ کھاتی رہیں۔ گوسٹ آرمی کی سرگرمیاں جنگ کے بعد تقریباً 50 سال تک خفیہ رکھی گئیں، تاکہ امریکا کے خفیہ حربے دوسروں کی نظر سے محفوظ رہیں۔
1996 میں جب اس خفیہ مشن کی تفصیلات منظر عام پر آئیں تو دنیا حیران رہ گئی کہ فنکاروں، اداکاروں اور انجینئروں پر مشتمل ایک جعلی فوج نے جنگ کے نقشے کس قدر کامیابی سے بدل دیے۔
تاریخ کی یہ انوکھی چال نہ صرف فوجی حکمتِ عملی کا شاہکار ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ جنگ صرف بندوقوں سے نہیں، دماغ اور تخلیقی صلاحیتوں سے بھی لڑی جاتی ہے۔