پاکستانی شوبز کی نوجوان اور ابھرتی ہوئی اداکارہ عینا آصف نے اپنے مختصر مگر کامیاب کیریئر میں کئی یادگار کردار نبھائے ہیں۔ ”مائی ری“، ”ہم تم“، ”پنجرا“، ”پہلی سی محبت“ اور ”بے بی باجی“ جیسے مقبول ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے کے بعد وہ اس وقت ”جڑواں“ اور ”پرورش“ جیسے نئے پروجیکٹس پر کام کر رہی ہیں۔

حال ہی میں عینا آصف اپنے ساتھی اداکار ابوالحسن کے ہمراہ ایک مارننگ شو میں شریک ہوئیں، جہاں وہ اپنے نئے ڈرامہ کی تشہیر کے لیے مدعو تھیں۔

شوبز کی چمک میں بھی بیوی سے سچی محبت ،شجاع اسد کی انوکھی لو اسٹوری

شو کے دوران ایک حساس موضوع ڈپریشن اور مذہبی رجحان پر ان کی گفتگو نے ناظرین کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی اور بعد ازاں یہ کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔

گفتگو کے دوران عینا آصف نے کہاکہ، بعض اوقات ڈاکٹر یا معالج مناسب رہنمائی نہیں کرتے، اور فوری طور پر کہہ دیتے ہیں ’نماز پڑھو‘۔ میں مانتی ہوں کہ نماز اہم ہے، لیکن جب کوئی شدید ڈپریشن میں ہو تو اسے فوری جذباتی اور ذہنی مدد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

اس پر ابوالحسن نے بھی اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ، ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر مسئلے کا حل صرف نماز میں نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل دی ہے، اور ذہنی بیماریوں کے علاج کے لیے ہمیں ماہرینِ نفسیات سے مدد لینے میں کوئی حرج نہیں۔

یہ بیانات جیسے ہی سوشل میڈیا پر سامنے آئے، ویڈیوز کو ہزاروں افراد نے شیئر کیا، اور ایک نیا تنازعہ جنم لے چکا تھا۔

متعدد صارفین نے دونوں فنکاروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ مذہبی معاملات پر بات کرنے کے اہل نہیں۔

ایک صارف نے لکھا،’اب اداکار ہمیں اسلام سکھائیں گے؟ کیا یہ ان کا شعبہ ہے؟‘

جبکہ ایک اور صارف نے قرآن کی آیت کا حوالہ دیا، ’وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ“ — “صبر اور نماز سے مدد لو۔‘

کئی افراد نے نماز کو روحانی سکون کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے دونوں فنکاروں پر ”لبرل سوچ“ کا الزام لگایا۔ ایک خاتون صارف نے تبصرہ کیا، ’میرے لیے تو نماز ہمیشہ سب سے بڑی تسلی رہی ہے۔ جب بھی دل بوجھل ہوتا ہے، نماز ہی سے سکون ملتا ہے۔‘

دوسری جانب، کچھ ناظرین نے عینا اور ابوالحسن کے مؤقف کو سراہا اور کہا کہ ان کا پیغام دراصل ذہنی صحت کو سنجیدگی سے لینے کے بارے میں تھا، نہ کہ نماز کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے۔

ان کا ماننا تھا کہ معاشرے میں اب وقت آ چکا ہے کہ ڈپریشن جیسے امراض کو حقیقی بیماریوں کے طور پر تسلیم کیا جائے، اور متاثرہ افراد کے لیے پیشہ ورانہ مدد کو عام کیا جائے۔

More

Comments
1000 characters