سولیہل، ویسٹ مڈلینڈز کیبرطانیہ کی 27 سالہ کلوئی ریزبیک ایک نایاب الرجی کی وجہ سے گزشتہ بیس سالوں سے پھل اور سبزیاں کھانے سے قاصر ہیں۔

سولیہل، ویسٹ مڈلینڈز کی رہائشی کلوئی کو سات سال کی عمر میں اورل الرجی سنڈروم (OAS) نامی بیماری کی تشخیص ہوئی تھی، جس میں کچھ مخصوص پھلوں، سبزیوں اور گری دار میووں سے الرجی کی شدید علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

باپ کی پرانی پاس بک نے بیٹے کو کروڑ پتی بنا دیا

کلوئی کی الرجی کی شروعات 2004 میں ہوئی، جب اسکول میں ایک آڑو کھانے کے بعد ان کے ہونٹ سوج گئے اور گلے میں خارش ہونے لگی۔

کچھ دن بعد سیب کھانے سے حالات مزید خراب ہوئے، اور اُن کے منہ میں دانے بن گئے۔ ڈاکٹروں نے ٹیسٹ کے بعد بتایا کہ وہ کئی پھلوں اور سبزیوں جیسے سیب، آڑو، آلوبخارا، کیوی، گاجر، بادام وغیرہ سے الرجک ہیں۔

OAS برطانیہ کی صرف 2 فیصد آبادی کو متاثر کرتا ہے اور اکثر ہی فیور (ناک اور آنکھوں کی الرجی) سے جڑا ہوتا ہے۔ کلوئی کو بتایا گیا کہ اگر وہ کوئی ممنوعہ غذا کھائیں تو انفیلیکسس (جان لیوا الرجی کا حملہ) ہوسکتا ہے، جس کے بعد انہیں ایپی پین دیا گیا۔

فلائٹ اٹینڈنٹ کی قسمت بدل گئی: 500 روپے کی شرط سے 21 کروڑ جیت لئے، دوران پرواز ہی نوکری چھوڑ دی

کلوئی کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ 20 سالوں سے اپنی ”پانچ وقت کی غذا“ (یعنی پھل و سبزیاں) نہیں کھائیں۔ اب وہ صرف سادہ کھانے جیسے چاول، پاستا، گوشت، مچھلی اور دودھ پر انحصار کرتی ہیں۔ اپنی غذائی ضروریات کے لیے وہ ملٹی وٹامنز سپلیمنٹس استعمال کرتی ہیں۔

سماجی تقریبات میں بھی انہیں اپنے لیے علیحدہ کھانے کا بندوبست کرنا پڑتا ہے تاکہ کسی خطرناک چیز سے بچ سکیں۔

انہوں نے بتایا. کبھی کبھی لوگوں کو یقین نہیں آتا، اور یہی سب سے خطرناک بات ہے۔

کلوئی نے مزید کہا کہ وہ اکثر اپنے بوائے فرینڈ سے کہتی ہیں کہ وہ دانت برش کر لیں اگر انہوں نے کچھ ایسا کھایا ہو جو انہیں الرجی دے سکتا ہو۔

اب، 20 سال بعد، کلوئی نے آہستہ آہستہ کچھ نئی غذا آزمانا شروع کی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے رسبری کھانے کی ہمت کی، اور امید ہے کہ وقت کے ساتھ وہ اور بھی چیزیں اپنی غذا میں شامل کر سکیں گی۔

’میں اب بھی ان چیزوں سے الرجک ہوں، لیکن میں آہستہ آہستہ اپنا خوف کم کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔‘ رہائشی کلوئی کو سات سال کی عمر میں اورل الرجی سنڈروم (OAS) نامی بیماری کی تشخیص ہوئی تھی، جس میں کچھ مخصوص پھلوں، سبزیوں اور گری دار میووں سے الرجی کی شدید علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

کلوئی کی الرجی کی شروعات 2004 میں ہوئی، جب اسکول میں ایک آڑو کھانے کے بعد ان کے ہونٹ سوج گئے اور گلے میں خارش ہونے لگی۔

کچھ دن بعد سیب کھانے سے حالات مزید خراب ہوئے، اور اُن کے منہ میں دانے بن گئے۔ ڈاکٹروں نے ٹیسٹ کے بعد بتایا کہ وہ کئی پھلوں اور سبزیوں جیسے سیب، آڑو، آلوبخارا، کیوی، گاجر، بادام وغیرہ سے الرجک ہیں۔

OAS برطانیہ کی صرف 2 فیصد آبادی کو متاثر کرتا ہے اور اکثر ہی فیور (ناک اور آنکھوں کی الرجی) سے جڑا ہوتا ہے۔ کلوئی کو بتایا گیا کہ اگر وہ کوئی ممنوعہ غذا کھائیں تو انفیلیکسس (جان لیوا الرجی کا حملہ) ہوسکتا ہے، جس کے بعد انہیں ایپی پین دیا گیا۔ خوراک کا خوف اور محتاط زندگی

کلوئی کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ 20 سالوں سے اپنی ”پانچ وقت کی غذا“ (یعنی پھل و سبزیاں) نہیں کھائیں۔ اب وہ صرف سادہ کھانے جیسے چاول، پاستا، گوشت، مچھلی اور دودھ پر انحصار کرتی ہیں۔ اپنی غذائی ضروریات کے لیے وہ ملٹی وٹامنز سپلیمنٹس استعمال کرتی ہیں۔

سماجی تقریبات میں بھی انہیں اپنے لیے علیحدہ کھانے کا بندوبست کرنا پڑتا ہے تاکہ کسی خطرناک چیز سے بچ سکیں۔ انہوں نے بتایا: ”کبھی کبھی لوگوں کو یقین نہیں آتا، اور یہی سب سے خطرناک بات ہے۔“

کلوئی نے مزید کہا کہ وہ اکثر اپنے بوائے فرینڈ سے کہتی ہیں کہ وہ دانت برش کر لیں اگر انہوں نے کچھ ایسا کھایا ہو جو انہیں الرجی دے سکتا ہو۔ امید کی کرن: نئی غذا کی کوشش

اب، 20 سال بعد، کلوئی نے آہستہ آہستہ کچھ نئی غذا آزمانا شروع کی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے رسبری کھانے کی ہمت کی، اور امید ہے کہ وقت کے ساتھ وہ اور بھی چیزیں اپنی غذا میں شامل کر سکیں گی۔

’میں اب بھی ان چیزوں سے الرجک ہوں، لیکن میں آہستہ آہستہ اپنا خوف کم کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔‘

More

Comments
1000 characters