کیلیفورنیا یونیورسٹی، برکلے اور سان فرانسسکو کے سائنسدانوں نے ایک ایسا حیران کن کارنامہ انجام دیا ہے جو مستقبل میں ہماری بات چیت کے انداز کو مکمل طور پر بدل سکتا ہے۔ انہوں نے ایک ایسی ٹیکنالوجی تیار کی ہے جس سے دماغی سگنلز کو براہِ راست بولنے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی بغیر منہ ہلائے۔
دماغ میں بولنے کا عمل کیسا ہوتا ہے؟
جب ہم بولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ ایک سادہ سا کام ہے، لیکن درحقیقت دماغ کے اندر بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔
سب سے پہلے ہمارے دماغ کا ”پری فرنٹل کارٹیکس“ فیصلہ کرتا ہے کہ ہم کیا کہنا چاہتے ہیں۔ پھر یہ خیال ”بروکا ایریا“ نامی حصے میں پہنچتا ہے جو کہ زبان اور جملے بنانے کا ماہر ہوتا ہے۔
ادھر ”ورنک ایریا“ یہ چیک کرتا ہے کہ جو بات ہم کرنے جا رہے ہیں، وہ منطقی ہے بھی یا نہیں۔
اس کے بعد دماغ ”سینسری موٹر کارٹیکس“ کے ذریعے ہمارے منہ، زبان اور گلے کے عضلات کو حرکت دیتا ہے تاکہ آواز پیدا ہو سکے۔
جب ہم بولتے ہیں تو ہمارا دماغ ہماری اپنی آواز کو بھی سنتا ہے اور فوری ردعمل دیتا ہے تاکہ بولنے میں تسلسل برقرار رہے۔
لیکن اگر دماغ تو بولنے کے لیے تیار ہو، مگر جسم کے وہ عضلات کام نہ کریں جو بولنے میں مدد دیتے ہیں؟
یہی ہوا 47 سالہ این کے ساتھ جسے 30 سال کی عمر میں فالج کا اٹیک ہوا۔ وہ نہ چل سکتی تھی، نہ بول سکتی تھی۔
لیکن اب، سائنس اور ٹیکنالوجی نے این کو نہ صرف دوبارہ بولنے کا موقع دیا، بلکہ اس کی ”اپنی“ آواز بھی لوٹا دی!
سائنسدانوں نے این کے دماغ کے اس حصے میں الیکٹروڈز لگائے جو بولنے کے سگنلز پیدا کرتا ہے۔
پھر این کو کہا گیا کہ وہ مخصوص جملے اپنے ذہن میں دہرا کر صرف ہونٹ ہلا کر ادا کرے۔
اس دوران کمپیوٹر نے این کے دماغی سگنلز کو ریکارڈ کیا اور ایک خاص ”اسپیچ ڈیکوڈر“ میں فیڈ کیا۔
اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے اپنا جادو دکھایا، ان سگنلز کو مخصوص الفاظ سے جوڑا اور این کی پرانی آواز کی ریکارڈنگ کی مدد سے جملوں کو اصل جیسا بنایا۔
این کی سوچ، بغیر آواز کے، براہِ راست ایک مشین کے ذریعے بولی جانے لگی اور وہ بھی اس کی اپنی شناخت والی آواز میں!
یہ ٹیکنالوجی نہ صرف روبوٹک آواز والے پرانے اسپیکنگ ڈیوائسز سے کئی گنا بہتر ہے بلکہ یہ بولنے میں تاخیر بھی نہیں کرتی۔
این جیسے بہت سے لوگ جنہیں جسمانی طور پر بولنے میں مشکل ہے اب اپنی بات آزادانہ طور پر کہہ سکتے ہیں۔