الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا ہے کہ ایسے جوڑے جو والدین کی مرضی کے خلاف اپنی مرضی سے شادی کرتے ہیں، وہ محض اس بنیاد پر پولیس تحفظ کا مطالبہ نہیں کر سکتے جب تک کہ ان کی جان یا آزادی کو حقیقی خطرہ لاحق نہ ہو۔
بھارتی میڈیا کے مطابق یہ فیصلہ جسٹس سوربھ سریواستو نے ایک درخواست پر سماعت کے دوران سنایا، جو ایک شادی شدہ جوڑے شرِیا کیسروانی اور ان کے شوہرکی جانب سے دائر کی گئی تھی۔
3 دلہنوں کی 13 شادیاں، بڑی گرفتاریاں
اس درخواست میں انہوں نے پولیس تحفظ اور اپنے رشتہ داروں کی مبینہ مداخلت سے بچاؤ کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
عدالت نے واضح کیا کہ صرف اپنی مرضی سے شادی کرنے کی بنیاد پر پولیس تحفظ حاصل کرنا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔
’ایسے جوڑوں کو جو اپنی مرضی سے شادی کرتے ہیں، اور جنہیں کسی حقیقی خطرے کا سامنا نہیں، انہیں معاشرے کا سامنا کرنے اور ایک دوسرے کا سہارا بننے کی ہمت پیدا کرنی چاہیے۔‘
گھر کے نیچے کئی کمرے اور سرنگیں برآمد، مالک حیران رہ گیا
عدالت نے درخواست گزاروں کے دلائل کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ’درخواست میں ایسا کوئی مواد یا ثبوت پیش نہیں کیا گیا جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان کی جان یا آزادی کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہے۔’
عدالت نے مزید کہا کہ درخواست گزاروں نے پولیس کو کسی واضح شکایت یا ایف آئی آر کے لیے بھی کوئی باضابطہ اطلاع نہیں دی، اس لیے پولیس کی جانب سے بھی فوری کارروائی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ پولیس صرف حقیقی خطرے کی صورت میں کارروائی کرے گی۔
عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ درخواست گزاروں نے ضلع چترکوٹ کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ایک نمائندگی جمع کروائی ہے۔ اس پر رائے دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ، اگر متعلقہ پولیس کو واقعی خطرے کا کوئی پہلو محسوس ہوا تو وہ قانون کے مطابق ضروری اقدامات کرے گی۔
عدالت نے سپریم کورٹ کے ایک سابقہ فیصلے (Lata Singh بنام ریاستِ اتر پردیش) کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ، عدالتوں کا کام ایسے نوجوانوں کو تحفظ دینا نہیں جو محض والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرکے فرار ہو گئے ہوں۔