اگر کبھی وقت میں سفر ممکن ہو اور آپ کو 16ویں صدی کے یورپ میں پہنچنے کا موقع ملے، تو آپ ایک ایسا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ پائیں گے جس نے تاریخ کا رخ ہی بدل دیا۔

اکتوبر 1582 کی ایک رات یورپ کی چند بڑی کیتھولک سلطنتوں اٹلی، اسپین، فرانس اور پرتگال کے لاکھوں شہری آرام سے سوئے، لیکن اگلی صبح جب آنکھ کھلی تو ان کا کیلنڈر 5 اکتوبر کی جگہ سیدھا 15 اکتوبر دکھا رہا تھا۔

ماہرین نے چیٹ جی پی ٹی کا ’باربی ڈول ٹرینڈ‘ خطرناک قرار دے دیا

یہ کوئی جادو یا سائنسی حادثہ نہیں تھا، بلکہ ایک باقاعدہ انتظامی اقدام تھا جس نے ”وقت“ کو از سرِ نو ترتیب دیا۔ یوں وہ دس دن 5 سے 14 اکتوبر جیسے تاریخ سے ”مٹ“ گئے۔

ان دنوں میں نہ کوئی پیدا ہوا، نہ کسی کی شادی ہوئی اور نہ ہی کوئی دنیا سے رخصت ہوا۔ گویا وقت میں ایک ایسی دراڑ آ گئی ہو جو کاغذ پر دکھائی تو دیتی ہے، مگر حقیقت میں موجود نہیں۔

اس عجیب و غریب واقعے کی جڑیں صدیوں پرانے ”جولیئن کیلنڈر“ میں تھیں، جسے رومی بادشاہ جولیس سیزر نے 45 قبل مسیح میں متعارف کروایا تھا۔

’یہ بدشگونی ہے‘، قدیم اہرام ٹوٹ کر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل

یہ کیلنڈر ایک قدیم مصری نظام پر مبنی تھا، مگر اس میں ایک چھوٹا سا سائنسی فرق موجود تھا ایک سال کی اصل مدت سے ہر سال تقریباً 11 منٹ زیادہ شمار کیا جاتا رہا۔ یہ فرق وقت کے ساتھ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ کیلنڈر موسموں کے قدرتی چکر سے ہم آہنگ نہیں رہا۔

1582 میں پوپ گریگوری سیزدہم نے اس خامی کو درست کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ایک نیا کیلنڈر متعارف کرایا، جو سورج کی گردش اور مذہبی تقریبات خاص طور پر ایسٹر کے ساتھ بہتر ہم آہنگی رکھتا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک انوکھا اقدام کیا۔ دس دنوں کو مکمل طور پر حذف کر دیا۔

4 اکتوبر 1582 کو رات سونے والے افراد نے 5 اکتوبر کو جاگنے کی بجائے خود کو سیدھا 15 اکتوبر میں پایا۔ یہ گریگورین کیلنڈر کا آغاز تھا، جو وقت کی درستی کی ایک کوشش تھی۔ ایک ایسا قدم جس نے وقت کی سمت کو ایک نیا معیار دے دیا۔

ابتدا میں صرف چند کیتھولک ریاستوں نے اسے اختیار کیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ باقی دنیا نے بھی اس کی افادیت کو تسلیم کیا۔ برطانیہ اور اس کی نوآبادیات نے اسے 1752 میں اپنایا، جب کہ روس اور یونان جیسے ممالک نے اسے 20ویں صدی میں نافذ کیا۔

گریگورین کیلنڈر آج دنیا کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا کیلنڈر ہے، جو نہ صرف موسمی تغیرات کے ساتھ ہم آہنگ ہے بلکہ عالمی سطح پر وقت کے تعین میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اگرچہ کئی ممالک آج بھی مذہبی یا ثقافتی کیلنڈرزکو اپنی عبادات اور روایات کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکن گریگورین کیلنڈر بین الاقوامی نظامِ وقت کا بنیادی ستون بن چکا ہے۔

پوپ گریگوری کے اس بظاہر سادہ مگر انقلابی فیصلے نے یہ واضح کر دیا کہ علم، عقل اور انتظامی فراست مل کر وقت کی سمت کو بھی بدل سکتی ہے، بس ایک دستخط کافی ہوتا ہے، اور تاریخ کا دھارا نیا موڑ اختیار کر لیتا ہے۔

More

Comments
1000 characters