امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی کے تقریباً 2.3 ارب ڈالر کے وفاقی فنڈز منجمد کر دیے ہیں۔ یہ فیصلہ یونیورسٹی کی جانب سے حکومتی مطالبات ماننے سے انکار کے بعد سامنے آیا، جن میں کیمپس پر سرگرم طلبہ کی فعالیت کو محدود کرنے اور ڈائیورسٹی، ایکویٹی اور انکلوزن (DEI) پروگرامز کو ختم کرنے کا مطالبہ شامل تھا۔

یہ فنڈز 2.2 ارب ڈالر کے گرانٹس اور 60 ملین ڈالر کے وفاقی معاہدوں پر مشتمل ہیں۔ محکمہ تعلیم کے انسدادِ سامیت مخالف ٹاسک فورس نے ہارورڈ کی جانب سے انکار کو ”اشرافیہ تعلیمی اداروں میں پائے جانے والے خطرناک احساسِ استحقاق“ سے تعبیر کیا۔

امریکہ نے بغیر وارننگ کے بین الاقوامی طلبا کے ویزے اچانک منسوخ کر دیے

ہارورڈ کے صدر ایلن گاربر نے اس فیصلے سے چند گھنٹے قبل ایک خط کے ذریعے یونیورسٹی کمیونٹی کو آگاہ کیا کہ ادارہ اپنی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا:

’یونیورسٹی نہ تو اپنی خودمختاری ترک کرے گی اور نہ ہی اپنے آئینی حقوق سے دستبردار ہوگی۔ کسی بھی حکومت کو، چاہے وہ کسی بھی جماعت سے ہو، یہ حق حاصل نہیں کہ وہ نجی یونیورسٹیوں کو یہ بتائے کہ وہ کیا پڑھائیں، کسے داخلہ دیں یا بھرتی کریں، اور کس شعبے میں تحقیق کریں۔‘

گاربر نے مزید کہا کہ حکومت کے مطالبات نہ صرف آئین کی پہلی ترمیم سے متصادم ہیں بلکہ وفاقی قوانین کے دائرہ اختیار سے بھی تجاوز کرتے ہیں۔

دوسری جانب، سینیٹر برنی سینڈرز نے ٹرمپ کے فیصلے کو ’آمریت کی طرف قدم‘ قرار دیا اور ہارورڈ کے طلبہ کو ان کی جمہوری اقدار کے دفاع پر سراہا۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ جمعہ کو ہارورڈ کو بھیجے گئے خط میں ادارے کی گورننس، قیادت، داخلہ پالیسیوں، اور طلبہ تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ انتباہ بھی دیا گیا کہ اگر یونیورسٹی نے تعاون نہ کیا تو مزید 9 ارب ڈالر کے فنڈز بھی روکے جا سکتے ہیں۔

عالمی رینکنگ میں پاکستانی جامعات کہاں کھڑی ہیں؟

ہارورڈ کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف پینسلوانیا، براؤن، اور پرنسٹن جیسے ممتاز ادارے بھی حکومتی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں، جبکہ کولمبیا یونیورسٹی کو پالیسی میں تبدیلی کے بعد ہی اربوں ڈالر کے ممکنہ نقصان سے بچایا گیا تھا۔

گاربر کا کہنا تھا کہ ادارے نے سام دشمنی کے خلاف خود بھی متعدد اصلاحات کی ہیں، لیکن یہ فیصلے ’حکومتی حکم‘ پر نہیں بلکہ ’ادارے کی کمیونٹی کے فیصلے سے‘ نافذ کیے جائیں گے۔

More

Comments
1000 characters