وہ وقت گزر چکا جب باورچی خانے، جھاڑو پونچھا اور کپڑوں کی دھلائی صرف خواتین کی ذمے داری سمجھی جاتی تھی۔ نئی تحقیق کے مطابق اب مرد بھی گھریلو زندگی کے اس محاذ پر سرگرم نظر آتے ہیں اور یہ تبدیلی صرف چند برس کا قصہ نہیں بلکہ عشروں پر محیط ارتقائی سفر کا نتیجہ ہے۔

ٹورنٹو یونیورسٹی کی معروف ماہر عمرانیات پروفیسر میلیسا ملکی کی تازہ تحقیق اس رجحان کی نشاندہی کرتی ہے کہ شادی شدہ مرد اب ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ گھریلو کاموں میں حصہ لے رہے ہیں۔

اس تحقیق نے نہ صرف معاشرتی رویوں میں ہونے والی نمایاں تبدیلیوں کو اجاگر کیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ صنفی توازن اب محض ایک نعرہ نہیں بلکہ عملی شکل اختیار کر رہا ہے۔

امریکا میں کیے جانے والے ’ٹائم یوز سروے‘ کے اعداد و شمار کے مطابق، 2003 سے 2005 کے دوران شادی شدہ خواتین ہر ہفتے اوسطاً 4.2 گھنٹے کھانا پکانے، صفائی اور دیگر گھریلو امور میں صرف کرتی تھیں، جب کہ انہی کاموں کے لیے مردوں کی جانب سے صرف کیا جانے والا وقت محض 1 گھنٹہ تھا۔ مگر 2022 تا 2023 کے حالیہ سروے میں یہ فرق نمایاں حد تک کم ہو کر رہ گیا ہے۔ اب ہر شادی شدہ مرد کے ایک گھنٹے کے مقابلے میں خواتین 2.5 گھنٹے گھریلو کام کرتی ہیں۔

یہ فرق نہ صرف وقت کے ساتھ کم ہوا ہے بلکہ اس نے صنفی کرداروں کے حوالے سے جاری عالمی مکالمے کو بھی نئی جہت دی ہے۔

پروفیسر میلیسا ملکی کہتی ہیں کہ اب ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں مرد بھی روایتی طور پر خواتین کے سمجھے جانے والے کام کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ یہ ایک خاموش مگر طاقتور تبدیلی ہے جو معاشرے کی گہرائیوں میں سرایت کر رہی ہے۔

تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ماضی میں یہ فرق کہیں زیادہ گہرا تھا۔ 1960 کی دہائی میں شادی شدہ خواتین اپنے شوہروں کے مقابلے میں گھریلو کاموں پر 7 گنا زیادہ وقت صرف کرتی تھیں۔

1990 کی دہائی کے وسط تک یہ فرق تقریباً 2گنا تک کم ہو گیا اور آج، یہ فرق مزید 40 فیصد کم ہو چکا ہے، جو ایک تاریخی سنگِ میل ہے۔

یہ پیش رفت صنفی مساوات کے علمبرداروں کے لیے کسی اچھی خبر سے کم نہیں، تاہم اسکالرز اس بات پر متفق نہیں کہ آیا یہ تبدیلی ایک مکمل صنفی انقلاب کی طرف بڑھتی جا رہی ہے یا پھر یہ عمل کسی حد پر آ کر تھم گیا ہے۔

بہت سے ماہرین اس تبدیلی کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہیں، خاص طور پر ایسے دور میں جب خواتین کی معاشی اور سماجی شراکت بڑھتی جا رہی ہے اور گھریلو ذمے داریاں اب صرف ایک صنف تک محدود نہیں رہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو مستقبل میں گھر کے اندر بھی وہی توازن نظر آئے گا جو آج ہم کام کی جگہوں پر دیکھنے کے خواہاں ہیں۔

اب یہ مرد اور عورت دونوں کی ذمے داری ہے کہ وہ نہ صرف ایک دوسرے کی مدد کریں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے برابری اور شراکت داری کی مثال قائم کریں۔

More

Comments are closed on this story.