ہم سب جانتے ہیں کہ لاکھوں سال پہلے زمین پر حکومت کرنے والے عظیم الجثہ ڈائنوسارز ایک خوفناک شہابِ ثاقب کے ٹکرانے سے یکسر ختم ہو گئے۔ یہ شہابِ ثاقب آج کے میکسیکو کے یوکاٹن (Yucatan) علاقے میں گرا تھا، اور اس نے زمین کے ماحول، موسم اور زندگی کے توازن کو بری طرح متاثر کیا۔ لیکن ایک عرصے سے سائنسدانوں کے درمیان یہ سوال زیرِ بحث رہا ہے کہ کیا یہ دیو قامت مخلوق پہلے ہی زوال کا شکار ہو چکی تھی؟

اب یونیورسٹی کالج آف لندن کے محققین کی ایک تازہ تحقیق نے اس معاملے پر نئی روشنی ڈالی ہے۔ یہ تحقیق مشہور سائنسی جریدے ’کرنٹ بائیالوجی‘ میں شائع ہوئی ہے۔ تحقیق میں شمالی امریکا کے فوسل ریکارڈ کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا جو کریٹیشیئس دور کے آخری 18 ملین سال پر محیط ہے۔

ڈائنوسارز کی زمین پر واپسی؟ ماہرین کا سنسنی خیز انکشاف

تحقیق سے پتا چلا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ڈائنوسارز کی اقسام کی تعداد تقریباً 75 ملین سال قبل اپنی انتہا کو پہنچی اور پھر شہابِ ثاقب کے ٹکرانے سے 9 ملین سال پہلے تک ان میں کمی آنے لگی۔ مگر جب سائنسدانوں نے گہرائی میں جا کر جائزہ لیا، تو انہیں معلوم ہوا کہ اس کمی کی بڑی وجہ فوسل کے کم ملنے کے امکانات تھے، نہ کہ خود ڈایناسورز کی کمی۔

ڈاکٹر کرس ڈین، جو اس تحقیق کے مرکزی مصنف ہیں، ان کے مطابق، ’ہم نے پایا کہ شہابِ ثاقب کے ٹکرانے سے پہلے کے 6 ملین سال میں فوسل ملنے کے امکانات کم ہو گئے تھے، لیکن ڈائنوسارز کا اس وقت بھی ان علاقوں میں موجود ہونا ایک مستحکم حقیقت تھی۔‘

ڈائنوسارز کے انڈوں کو بھارتی شیولنگ سمجھ کر پوجتے رہے

محققین نے چار بڑے ڈائنوسار خاندانوں ٹائرینو سوریڈے، ہیڈرو سوریڈے، سیراٹوپسیڈے اور اینکیلوسوریڈے کا جائزہ لیا۔ انہوں نے ’آکیوپینسی ماڈلنگ‘ نامی ایک ماحولیاتی تجزیاتی طریقہ استعمال کیا جس کی مدد سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ ڈایناسورز کہاں کہاں رہتے تھے اور ان کا ماحول کتنا مستحکم تھا۔

نتائج سے یہ ظاہر ہوا کہ آخری 18 ملین سال میں ڈائنوسارز کے رہائشی علاقوں میں کوئی خاص کمی نہیں آئی۔ ان کے مسکن مستحکم رہے، اور یہ بات اس نظریے کو کمزور کرتی ہے کہ وہ قدرتی طور پر ختم ہو رہے تھے۔

ڈاکٹر کرس ڈین کا کہنا ہے کہ، ’اگر وہ شہابِ ثاقب زمین سے نہ ٹکراتا، تو شاید آج ڈائنوسارز ہمارے ساتھ ہی زمین پر موجود ہوتے، جیسے کہ پرندے، جو انہی کی اولاد ہیں۔‘

برطانیہ میں ڈائنا سار کے زیر استعمال 166 ملین سال پرانا راستہ دریافت

یہ تحقیق اس اہم سوال کا جواب فراہم کرتی ہے کہ ڈائنوسارز کی تباہی ایک اچانک اور خارجی واقعے کا نتیجہ تھی، نہ کہ ایک تدریجی زوال کا۔ یہ بات ہمیں قدرت کے نازک توازن کا احساس دلاتی ہے، اور یہ بھی کہ زمین پر زندگی کے ارتقاء میں غیر متوقع عناصر کا کیا کردار ہوتا ہے۔

More

Comments are closed on this story.