1994 کا دسمبر وہ مہینہ تھا جب ایک سائنسدان نے اعلان کیا کہ وہ حقیقت میں ردوبدل کرنے کا طریقہ دریافت کرچکا ہے۔ لیکن اس کے 12 گھنٹے بعد، وہ غائب ہو گیا۔ اس کی لیب خالی کر دی گئی، اس کی تحقیق مٹا دی گئی اور اس کا جسم کبھی نہیں ملا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امریکی خفیہ ایجنسی ”سی آئی اے“ نے اسے غائب کیا،کچھ کہتے ہیں کہ اس کا تجربہ ناکام ہو گیا۔
ڈاکٹر جیکوبو گرین برگ کوئی عام سائنسدان نہیں تھے۔ وہ ایک ماہر نفسیات اور شعور کے محقق تھے، جنہوں نے ٹیلی پیتھی اور من کی آنکھوں کی نظر کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے قدیم شامنک حکمت اور کوانٹم فزکس کے درمیان تعلق تلاش کیا۔
لیکن جو کچھ انہوں نے دریافت کیا، اس نے حقیقت کی بنیادوں کو ہلا دیا۔
گرین برگ کا خیال تھا کہ حقیقت وہ نہیں جو ہمیں نظر آتی ہے۔ ان کے مطابق ہم صرف دنیا کا مشاہدہ ہی نہیں کرتے بلکہ ہم اسے تخلیق کرسکتے ہیں۔
انہیں یقین تھا کہ ہمارا دماغ ایک ”معلوماتی میٹرکس“ سے تعلق رکھتا ہے—ایک ہولوگراف جو شعور اور ادراک کو ملا دیتا ہے۔
انہوں نے اس کا ثبوت بھی دیا۔
فزکس میں، ”لیٹس“ وہ ساخت ہے جو اسپیس ٹائم کی بنیاد ہے۔ گرین برگ نے اس کا نیا مطلب پیش کیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ شعور کے ذریعے اس لیٹس تک پہنچ کر ہم اسپیس ٹائم کو خود تبدیل کر سکتے ہیں۔اور کہا کہ حقیقت کو میں ردوبدل کوئی دھوکہ نہیں، بلکہ ایک شعوری عمل ہے۔
ان کا نظریہ ”سینٹر جی“ کہلاتا تھا—سنتھیسس اور انرجی (توانائی) کا امتزاج۔
ڈاکٹر گرین برگ کی تحقیق نے دریافت کیا کہ:
• ہمارا دماغ حقیقت کو ڈی کوڈ کرتا ہے، اور لیٹس کے ساتھ ایک پل بناتا ہے
• شعوری خیالات اسپیس ٹائم میں تبدیلیاں لا سکتے ہیں
• ہم حقیقت میں تماشائی نہیں، بلکہ شریک ہیں
اس کے اثرات؟ حیرت انگیز!!!
گرین برگ کے مطابق اگر دماغ کی ”نیورونل فیلڈ“ اسپیس کی توانائی کے میدان کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے، تو شعور وجود کی ساخت پر اثر ڈال سکتا ہے۔
ذرا اس بارے میں سوچیں! آپ کا دماغ، حقیقت کا خاکہ بدل رہا ہے۔
یہ نظریہ ہماری معلومات میں موجود ہر چیز کو چیلنج کرتا ہے۔
گرین برگ کا کام فزسسٹ ڈیوڈ بوہم کے ”اندرونی ترتیب کے نظریہ“ سے مشابہ تھا۔
بوہم نے اسپیس کو ایک ”ہولوگرافک سمندر“ کے طور پر بیان کیا تھا—جہاں کائنات اور شعور ساتھ ساتھ پھولتے ہیں۔
لیکن، گرین برگ کے خیالات غیر مقامی تعلقات کو وضاحت فراہم کر سکتے ہیں: اسپیس سے باہر فوری تعلقات۔
انہوں نے صرف نظریہ نہیں پیش کیا، انہوں نے تجربات کیے۔
ڈاکٹر گرین برگ نے ٹیلی پیتھی کے تجربات کیے، یہ ثابت کیا کہ دو مراقبہ کرنے والے دماغ ہم آہنگ ہو سکتے ہیں—جسمانی طور پر جڑے بغیر ایک جیسے دماغی نمونے دکھا سکتے ہیں۔
انہوں نے اس مظہر کو منتقلی صلاحیت (TP) کہا۔
لیکن بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔
گرین برگ کے میکسیکن شامنوں کے ساتھ میدان میں کام نے حیرت انگیز صلاحیتوں کو بے نقاب کیا۔
وہ بغیر آنکھوں کے ”دیکھ“ سکتے تھے، ارادے سے شفا دے سکتے تھے، اور حقیقت کو تبدیل کر سکتے تھے۔
انہوں نے یقین کیا کہ یہ اعمال ایک انتہائی ”نیوروسینٹرک“ دماغ کو ظاہر کرتے ہیں، جو ہولوگرام کو خود تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تصور کریں کہ آپ کا دماغ اتنا ہم آہنگ ہو کہ وہ حقیقت کو مروڑ دے۔
گرین برگ کے مطالعات نے ایک ہولناک نتیجہ پیش کیا، اور وہ یہ تھا کہ ہم ایک ”میٹرکس“ میں رہتے ہیں، صرف استعاراتی طور پر نہیں، بلکہ ایک توانائی کی ساخت کے طور پر جو اجتماعی سوچ سے تشکیل پاتی ہے۔
اور اس پر عبور حاصل کرنا کا مطلب تھا… سب سے بلند ہونا۔
اس سے کچھ سوالات اٹھتے ہیں کہ اگر حقیقت ایک انٹرایکٹو ہولوگراف ہے، تو کیا ہم گہری سچائیوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں؟ کیا میٹرکس پر مکمل عبور حاصل کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ایک پاکیزہ حالت میں تحلیل ہو جائیں—اس جہت سے آگے نکل جائیں؟
گرین برگ کو ایسا ہی یقین تھا۔
لیکن پھر کچھ پراسرار ہوا۔۔۔
دسمبر 8، 1994: ڈاکٹر جیکوبو گرین برگ غائب ہو گئے۔ کسی قسم کی جدوجہد کے آثار نہیں۔ کوئی ثبوت نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ ان کی بیوی نے بے گناہی کا دعویٰ کیا۔ اور تحقیقات کرنے والے حیران رہ گئے۔
افواہیں اُڑیں کہ سی آئی اے نے انہیں غائب کیا، کسی نے کہا کہ حریفوں نے انہیں اغوا کیا، جبکہ کچھ کا ماننا تھا کہ ان کا خود کا تجربہ غلط ہو گیا۔
لیکن خوفناک بات یہ ہے کہ ان کے ریسرچ پیپر کے آخری حصے میں ایک انتباہی پیغام درج تھا: ”جب آپ جان لیں گے کہ لیٹس کیسے کام کرتا ہے، تو آپ … غائب ہو سکتے ہیں۔“
یہ پیش گوئی تھی یا ایک انتباہ؟ یا کیا انہوں نے کائنات کی کنجی تلاش کرلی تھی؟ ہم شاید کبھی نہ جان سکیں۔
لیکن ان کے کام کے اثرات بہت بڑے ہیں۔
یہ کام اور نظریہ سائنس اور مابعدالطبیعت کی سرحدوں کو دھندلا دیتا ہے، یہ دکھاتا ہے کہ دماغ کی صلاحیت شاید بے انتہا ہو۔
اس نظریے کے مطابق حقیقت پروگرام کی جا سکتی ہے، جبکہ شعور اسپیس ٹائم کو تشکیل دیتا ہے اور ہم سب لیٹس کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔
انہوں نے ثابت کیا کہ قدیم شامنوں نے یہ سب کچھ بہت پہلے ہی جان لیا تھا۔