کراچی کے پسماندہ علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک مکان کے باہر ”الیکٹریشن دستیاب ہے“ کی عبارت والا کارڈ بورڈ سائن لٹک رہا ہے، نیچے ایک شخص کا نام، فون نمبر اور اس کی سلائی مشینوں اور واٹر پمپس کی مرمت میں مہارت درج ہے۔

حقیقت میں یہ الیکٹریشن 30 سالہ نازیہ سحر ہیں جبکہ فون نمبر ان کے شوہر محمد ریحان کا ہے، سحر ان 200 خواتین الیکٹریشنز میں سے ایک ہیں، جنہیں کراچی کے الیکٹرک نے’لائٹ سسٹرز’ پروگرام کے تحت تربیت دی ہے۔

یہ پروگرام 2021 میں شروع کیا گیا تھا اور اس کا مقصد پاکستان میں توانائی کے شعبے میں خواتین کو مواقع فراہم کرنا ہے، جہاں خواتین کی شمولیت صرف 4 فیصد ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری کلاس میں 40 خواتین تھیں، جن میں سے 10 کو کے الیکٹرک میں ملازمت مل گئی، آج کمپنی میں 45 خواتین بطور میٹر ریڈر کام کر رہی ہیں، جبکہ مردوں کی تعداد 426 ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے شوہر کو کرونا کے دوران ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا اور اس دوران مجھے ملنے والی انٹرن شپ نے ہمیں سہارا دیا۔

سماجی دباؤ اور مشکلات

سحر کو کئی سماجی رکاوٹوں کا سامنا بھی رہتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں، ایک شخص میرے پاس سے گزرتے ہوئے زور سے بولا کہ ’کیا ملک میں مرد الیکٹریشن ختم ہو گئے ہیں جو خواتین کو آنا پڑا؟‘ سحر کہتی ہیں کہ میں جواب دینا چاہتی تھی، لیکن میں نے نظر انداز کر دیا۔

ایک دن میں 200 میٹرز کی ریڈنگ

سحر روزانہ تقریباً 200 بجلی کے میٹرز کی ریڈنگ لیتی ہیں، جو ایک ہینڈ ہیلڈ ڈیوائس کے ذریعے ڈیٹا کو آن لائن منتقل کرتا ہے، یہ ایک مشکل کام ہے لیکن انہیں یہ بہت پسند ہے۔

گھر میں نئی ذمہ داریاں

ان کا کہنا تھا کہ اب گھر میں ان کے شوہر زیادہ گھریلو کام کرتے ہیں اور اپنے تین بچوں کی دیکھ بھال میں مدد دیتے ہیں۔

ان کے شوہر ریحان کا کہنا تھا کہ چند سال پہلے، چائے بنانا اور جھاڑو دینا میرے لیے ناممکن لگتا تھا لیکن آج میں سبزیاں کاٹ کر رکھتا ہوں تاکہ وہ شام میں کھانا بنا سکیں۔

شام کو، سحر استری اور چولہے ٹھیک کرتی ہیں، بیک اپ بیٹریاں انسٹال کرتی ہیں اور ہمسایوں کی مدد کرتی ہیں۔

ان کی پڑوسن نور النسا کا کہنا تھا کہ سحر برقی آلات ٹھیک کرنے کے لیے ہم سے پیسے نہیں لیتی ہیں، نور النسا 6 ماہ کے بچے کی ماں ہیں اور اپنے منشیات کے عادی شوہر سے علیحدگی اختیار کرچکی ہیں۔

نور النسا کا مزید کہنا تھا کہ گھر میں ، میں ، میری ماں اور بہن رہتی ہیں، میں صبح 7 بجے سے شام 7 بجے تک کام کرتی ہوں اور کسی غیر مرد کو گھر میں نہیں بلا سکتی، اس سے لوگوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگتی ہیں۔

More

Comments
1000 characters