کیا حقوقِ نسواں مردوں کے خلاف کوئی مہم ہے؟

17 Mar 2025
Raising voice for women’s rights or harsh criticism of men? - Marvi Awan - Baran-e-Rehmat

حقوقِ نسواں کے حوالے سے اکثر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جو بھی خواتین کے حقوق کی بات کرتا ہے، وہ درحقیقت مردوں کے خلاف ہے۔ تاہم، ماروی اعوان کے حالیہ مکالمے نے اس تصور کی واضح نفی کی اور اس حساس موضوع پر نہایت متوازن نقطۂ نظر پیش کیا۔

رمضان اسپیشل ٹرانسمیشن کے دوران میزبان شہریارعاصم نے ایک اہم سوال کیا کہ حقوقِ نسواں پر بات کرنے والی خواتین کو اکثر مردوں کے مخالف سمجھا جاتا ہے، حالانکہ مرد صرف ایک مخالف فریق نہیں بلکہ باپ، بھائی اور بیٹے کے روپ میں ایک خاندان کا حصہ بھی ہوتا ہے۔ اس پر ماروی اعوان نے مؤقف اختیار کیا کہ برابری کا مطلب مردوں کی برتری کو چیلنج کرنا نہیں، بلکہ خواتین کو ان کے جائز حقوق دینا ہے۔

چئیرمین ویمن پروٹیکشن سیل ماروی اعوان نے اس سوال پر کہا کہ بلکل ایسا ہی ہے، لیکن معاشرے میں جو جنس ہے یا جینڈر ہے یہ سب لوگ اپنا ایک حصہ رکھتے ہیں۔ ہم کسی کو بھی الگ نہیں کر سکتے کسی سے۔ ہم مل کے چلا رہے ہوتے ہیں معاشرے کو۔ ہم جب بھی Equality کی بات کرتے ہیں تو کبھی بھی یہ نہیں کہتے کہ مرد سے زیادہ عورت ہوجائے۔ یا عورت سے زیادہ کوئی نہیں ہے۔

خواتین کے حقوق کا عالمی دن: اسلام کیا کہتا ہے؟

جب ہم برابری کے معاشرے کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ لیڈیز فرسٹ بھی نہ کرو۔ میرٹ کی بات کرو۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ برابری (Equality) اور برابری کے مواقع (Equity) میں فرق ہے۔ اگر ایک طویل عرصے سے خواتین کو مساوی مواقع نہیں دیے جا رہے، تو انہیں آگے لانے کے لیے کچھ اقدامات ضروری ہیں، جیسے تعلیم میں ترجیح دینا۔ اس حوالے سے بعض لوگ کوٹہ سسٹم یا مخصوص مراعات کو غلط سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک عورتوں کو ان کا جائز حق نہیں ملے گا، حقیقی مساوات کا قیام ممکن نہیں۔

ایک اور اہم نکتہ جس پر گفتگو ہوئی، وہ گھریلو خواتین کی محنت اور ان کی اہمیت تھی۔ ماروی اعوان نے نشاندہی کی کہ ایک ماں صبح سویرے اٹھ کر اپنے بچوں اور گھر کے دیگر افراد کے لیے دن بھر کام کرتی ہے، لیکن اس کی تعریف کرنے کے بجائے اکثر اسے نظر انداز کیا جاتا ہے یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اگر اس کے کھانے میں معمولی سی کمی رہ جائے، تو غصے میں برتن پھینک دیے جاتے ہیں یا ناپسندیدہ الفاظ کہے جاتے ہیں، جس سے اس کی ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے۔

لاہور میں عورت مارچ: خواتین، اقلیتوں اور بنیادی حقوق کے تحفظ سمیت متعدد مطالبات

یہی وہ رویے ہیں جنہیں بدلنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کی محنت کو سراہے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ گھر کے کام کو صرف خواتین کی ذمہ داری سمجھنا اور ان کی خدمات کو کمتر جاننا ایک غیر منصفانہ سوچ ہے، جسے بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔

ماروی اعوان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ گھریلو اور سماجی تنازعات کو حل کرنے کے لیے مکالمہ ضروری ہے۔ جھگڑوں کے دوران گالی گلوچ، مار پیٹ یا سخت رویہ اختیار کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے، فریقین کو ایک دوسرے کی بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے اور باہمی عزت و احترام کے ساتھ مسائل حل کرنے کی راہ اپنانا چاہیے۔

کیا عورت ہی عورت کی دشمن ہے ؟

یہ کہنا غلط ہوگا کہ حقوقِ نسواں مردوں کے خلاف کوئی مہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ایسے متوازن معاشرے کی تشکیل کی تحریک ہے جہاں عورتوں کو ان کے حقوق، عزت اور برابری کے مواقع میسر ہوں۔ جیسا کہ ماروی اعوان نے واضح کیا، ہمیں نفرت کو ختم کر کے ایک دوسرے کو سمجھنے اور آگے بڑھانے کا راستہ اپنانا ہوگا۔ عورت ہو یا مرد، سب کو مساوی عزت اور حقوق ملنے چاہئیں تاکہ معاشرہ حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

More

Comments
1000 characters