گھریلو تشدد صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ پورے معاشرے کی سوچ، رویے اور تربیت کا عکاس ہے۔ یہ وہ زخم ہے جو اکثر نظر نہیں آتا، لیکن دل و دماغ پر گہرے نشانات چھوڑ جاتا ہے۔ تشدد صرف جسمانی نہیں ہوتا، بلکہ الفاظ، رویے، اور جذباتی استحصال بھی کسی کی زندگی کو جہنم بنا سکتے ہیں۔
آج نیوز کی رمضان اسپیشل ٹرانسمیشن کے دوران میزبان شہریار عاصم نے گھریلو تشدد کے ایک اہم پہلو پر سوال اٹھایا، مہمان شخصیت ماروی اعوان (چئیرمین ویمن پروٹیکشن سیل) سے انہوں نے سوال کیا کہ ’کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہے؟ جب کسی خاتون پر گھریلو تشدد کیا جاتا ہے، تو اس مرد کی ماں بھی ایک عورت ہوتی ہے، پھر وہ اسے روکنے میں کیوں ناکام رہتی ہے؟‘
لاہو ر میں گھریلو تشدد کا شکار لڑکا اسپتال میں دم توڑ گیا
چئیرمین ویمن پروٹیکشن سیل ماروی اعوان نے اس سوال کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے کہا کہ گھریلو تشدد ایک ایسا مسئلہ ہے جو کسی ایک جنس تک محدود نہیں۔ عموماً، مردانہ انا اور جذبات پر قابو نہ رکھنے کی عادت تشدد کی ایک بڑی وجہ بنتی ہے، جس کے تحت بعض مرد الفاظ کے بجائے ہاتھ اٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض مواقع پر خواتین بھی ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کرتی ہیں۔ ساس اور بہو کے روایتی تنازعات، رشتے داروں میں لڑکیوں پر تشدد، اور خواتین کا آپس میں ذہنی اذیت دینا، یہ سب ایسے معاملات ہیں جو کسی بھی معاشرے میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
گھریلو تشدد صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی بھی
ماروی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی گھریلو تشدد کا ذکر ہوتا ہے، عمومی طور پر جسمانی تشدد کو ہی مدنظر رکھا جاتا ہے، جبکہ ذہنی اور جذباتی تشدد کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ایسی خواتین جو مسلسل دباؤ، بدسلوکی، بے عزتی، اور توہین آمیز رویے کا سامنا کرتی ہیں، وہ بھی گھریلو تشدد کی شکار ہوتی ہیں، چاہے ان پر ہاتھ نہ اٹھایا گیا ہو۔
یہ حقیقت ہے کہ کئی مرتبہ خواتین ہی دوسری خواتین کو ہراساں کرتی ہیں، ذہنی دباؤ میں مبتلا کرتی ہیں، اور انھیں کمتر محسوس کرواتی ہیں۔ بعض معاشرتی روایات اور پدرشاہی نظام کے اثرات کی وجہ سے خواتین خود بھی اسی سوچ کا شکار ہو جاتی ہیں جو مردوں کے ظلم کو جواز فراہم کرتی ہے۔ کئی گھرانوں میں مائیں اپنے بیٹوں کو یہ سکھانے میں ناکام رہتی ہیں کہ عورت کا احترام ضروری ہے۔ اس کے برعکس، بعض ساسیں اپنی بہوؤں پر وہی ظلم دہراتی ہیں جو کبھی ان پر کیا گیا تھا، گویا یہ ایک سلسلہ ہے جو نسل در نسل جاری رہتا ہے۔
معاشرتی اور نفسیاتی پہلو
نفسیاتی ماہرین کے مطابق، گھریلو تشدد کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں، جن میں بچپن کے منفی تجربات، عدم برداشت، غصے پر قابو نہ پانے کی عادت، اور سماجی دباو شامل ہیں۔ بہت سے مرد جو اپنے گھروں میں تشدد کرتے ہیں، وہ درحقیقت خود کسی نہ کسی وقت ذہنی یا جسمانی تشدد کا شکار رہ چکے ہوتے ہیں۔ اسی طرح، بعض خواتین جو دوسری خواتین کے ساتھ سختی برتتی ہیں، ان کا اپنا ماضی بھی اسی طرح کے تجربات سے بھرا ہوتا ہے۔
بنا اجازت چاکلیٹ کھانے پر مالکان کے تشدد سے 12 سالہ گھریلو ملازمہ جاں بحق، دل دہلا دینے والی تفصیلات
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن گھروں میں مرد بیویوں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، وہاں بچوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ یا تو خوفزدہ ہو کر خود کو تنہا محسوس کرنے لگتے ہیں یا پھر بڑے ہو کر اسی تشدد کو اپنے رشتوں میں دہرانے لگتے ہیں۔ یہ ایک ایسا شیطانی دائرہ ہے جو تبھی ٹوٹ سکتا ہے جب والدین، اساتذہ، اور معاشرہ مل کر اس سوچ کو بدلے کہ تشدد کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
قانونی اور اخلاقی پہلو
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں گھریلو تشدد کے خلاف قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر مؤثر عمل درآمد ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بہت سی خواتین کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ قانونی طور پر اپنی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کر سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ، کئی معاملات میں خاندان ہی متاثرہ خاتون کو خاموش رہنے پر مجبور کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ انصاف حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ گھریلو تشدد کے خلاف نہ صرف سخت قوانین کی ضرورت ہے، بلکہ اس کے بارے میں آگاہی بھی ضروری ہے۔ مردوں کو بچپن سے یہ سکھایا جانا چاہیے کہ عورت کمزور نہیں، بلکہ برابر کی انسان ہے، اور اس پر ہاتھ اٹھانا یا اسے ذہنی اذیت دینا کسی طور پر قابل قبول نہیں۔ اسی طرح، خواتین کو بھی ایک دوسرے کی دشمن بننے کے بجائے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کو بہتر تربیت دے سکیں۔
لاہور: 14 سالہ گھریلو ملازم پر مالکان کا تشدد، حساس اعضاء کاٹ دئے
اس گفتگو نے یہ واضح کیا کہ تشدد، خواہ جسمانی ہو یا ذہنی، کسی مخصوص جنس تک محدود نہیں۔ یہ ایک سماجی المیہ ہے جو تبھی ختم ہو سکتا ہے جب ہم بحیثیت معاشرہ اس کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کریں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی ایسی پرورش کریں جو برداشت، احترام، اور محبت پر مبنی ہو۔ اسی طرح، قانون نافذ کرنے والے اداروں، میڈیا، اور تعلیمی نظام کو بھی اس مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے جہاں ہر فرد، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزار سکے۔