معروف ڈرامہ آرٹسٹ، ڈائریکٹر اور میزبان سعدیہ امام آج نیوز کی رمضان اسپیشل ٹرانسمیشن میں بطور مہمان شامل ہوئیں، جہاں انہوں نے ماضی اور حال کے ڈراموں کے معیار، مواد اور اثرات پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ میزبان شہریار عاصم کے سوال پر سعدیہ امام نے بتایا کہ پہلے کم تعداد میں ڈرامے بنتے تھے، لیکن ان کا معیار بہت مضبوط ہوتا تھا، جبکہ آج بے شمار چینلز اور پروڈکشن ہاؤسز کے باوجود کہانیوں میں وہ گہرائی اور نکھار کم نظر آتا ہے۔
سعدیہ امام نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ڈراموں پر تبصرہ کیا، انہوں نے کہا کہ ’آج کے کئی ڈرامے دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ ہمارے رائٹرز کس سوچ کے تحت یہ کہانیاں لکھ رہے ہیں؟ کون سے جذبات کے زیرِ اثر ایسے مکالمے تخلیق کیے جا رہے ہیں؟ پہلے ہمارے پاس سنسرشپ کا ایک معیار تھا، مگر اب کئی ڈرامے ایسے ہوتے ہیں جو میں اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتی۔ مجھے لگتا ہے کہ بچوں کو ایسے مواد سے دور رکھنا ہی بہتر ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی کے ڈرامے خاندانی تفریح کے لیے موزوں ہوتے تھے، جنہیں سب مل کر دیکھ سکتے تھے۔ اس وقت ہمیں بہترین اساتذہ، کہنہ مشق مصنفین اور پروفیشنل ٹیموں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، جن میں ایک سیلف سنسر کا شعور موجود تھا۔
سعدیہ امام نے معاشرتی بے حسی اور رشتوں میں بڑھتی تلخیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’میرا رب ستّارالعیوب ہے، جو عیبوں پر پردہ ڈالتا ہے، مگر ہم نقّارالعیوب بن چکے ہیں، لوگوں کی خامیوں کو نمایاں کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ بیہودگی کا پرچار نہیں ہونا چاہیے، بلکہ معاشرتی اصلاح کے لیے سوچنا چاہیے۔ اللہ نے اپنی ذات پر رحمت کو فرض کیا ہے، تو ہمیں اس سے کرم کی امین ہونی چایئے اوربےجا اپنے یا دوسروںکے گناہوں لو سرِعام نہین بتانا چاہیے۔ ’
سعدیہ امام نے کہا کہ ہر دور کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں، ماضی میں یاور حیات، ایوب خاور اور ساحرہ کاظمی جیسے بڑے ناموں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ آج بھی ڈرامے بن رہے ہیں لیکن وقت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے، حقیقت سے کچھ دور ہوتے جا رہے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ ڈرامہ معاشرے کا عکس ہوتا ہے، اور جو کچھ اسکرین پر دکھایا جا رہا ہے، وہ ہمارے ہی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم، اس عکاسی میں حقیقت پسندی اور اخلاقی اقدار کا توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔