مفتی طارق مسعود نے آج نیوز کے پروگرام ”آواز“ کی نشست میں فیشن، کراچی میں اسلحہ رکھنے کی ضرورت اور طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح جیسے اہم سماجی موضوعات پر روشنی ڈالی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وقت کے ساتھ فیشن بدلتے رہتے ہیں اور زینت انسان کی فطرت میں شامل ہے، تاہم اس کا شرعی دائرے میں رہنا ضروری ہے۔ اسی طرح، کراچی جیسے شہر میں اسلحہ رکھنا بعض اوقات ناگزیر ہوتا ہے، مگر اس کے غلط استعمال کے سنگین نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ علاوہ ازیں، انہوں نے طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان کو مذہب سے دوری، مغربی نظریات کی اندھا دھند تقلید اور مردوں و عورتوں کی باہمی ناچاقی سے جوڑا۔

رمضان میں فیشن اور شرعی حدود کا تعین ضروری

رمضان المبارک میں خریداری اور خاص طور پر نت نئے فیشن کے حوالے سے سوال کے جواب میں مفتی طارق مسعود نے کہا کہ اسلام زینت اور خوش لباسی کے خلاف نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ہے۔ انہوں نے قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کون ہے جس نے اُس زینت کو حرام کر دیا جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہے؟ لہٰذا، جو دل چاہے پہنیں اس میں کوئی لگا بندھا ضابطہ نہیں ، جب تک کہ وہ اسلامی احکام کے خلاف نہ جائے۔ علماء کا کام صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کو شرعی حدود سے آگاہ کریں۔ اگر کوئی لباس ان حدود کو پار کر رہا ہو، تب ہی اس پر اعتراض کیا جا سکتا ہے، ورنہ جو لباس انسان کو اچھا لگے، وہ پہن سکتا ہے۔

کراچی میں اسلحہ رکھنا ضروری یا خطرناک؟

اس پر مفتی طارق مسعود کہا کہنا ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں اسلحہ رکھنا ضروری ہے، خاص طور پر جب رمضان میں ڈاکے اور چوری کے واقعات بڑھ جاتے ہیں، لیکن اس کا استعمال انتہائی محتاط انداز میں ہونا چاہیے۔ انہوں نے ذاتی مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بے شمار حادثات دیکھے ہیں، جن میں لوگ اپنی ہی بندوق کا شکار ہوگئے۔ اسلحہ رکھنے سے پہلے اس کی باقاعدہ تربیت لینا ضروری ہے، کیونکہ غصے کے ایک لمحے میں یا غلط استعمال کے باعث کوئی بھی بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلحے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ معاشرے میں امن و امان کے قیام پر زور دیا جائے۔

طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح، مغربی نظریات اور مردوں کی بے راہ روی ذمہ دار؟

مفتی طارق مسعود نے طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ دین سے دوری اور مغربی نظریات کی نقالی ہے۔ ان کے مطابق، آج کل خواتین کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ وہ مردوں کے برابر ہیں، اور اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ بیوی کو شوہر کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے، ساس کی خدمت نہیں کرنی چاہیے، اور سسرال کو کوئی حیثیت نہیں دینی چاہیے۔ اس کے برعکس، شوہر پر یہ ذمہ داری عائد کر دی گئی ہے کہ وہ بیوی کے تمام حقوق ادا کرے، مگر جب عورت کو کہا جاتا ہے کہ وہ بھی شوہر کے حقوق ادا کرے، تو اسے آزادی کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے ڈراموں میں دکھائے جانے والے منفی رویوں پر بھی تنقید کی، جہاں اگر شوہر بیوی کو تھپڑ مارتا ہے، تو بیوی فوراً اسے واپس تھپڑ مار دیتی ہے۔ ان کے مطابق، یہ رویہ معاشرتی توازن کو بگاڑنے کا باعث بن رہا ہے۔ ایسے رویے مرد اور عورت کے تعلق میں تلخی پیدا کرتے ہیں، جو بالآخر طلاق پر منتج ہوتے ہیں۔

مردوں کی بے راہ روی اور ازدواجی رشتوں کا ٹوٹنا

مفتی طارق مسعود نے اس بات پر زور دیا کہ طلاق کی ایک اور بڑی وجہ مردوں کی بے راہ روی ہے۔ پہلے زمانے میں عورت کو یقین ہوتا تھا کہ اس کا شوہر صرف اسی کے ساتھ وفادار ہے، مگر آج کے دور میں موبائل فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے بے وفائی کے رجحانات بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مردوں کی دوستیاں ، نشے کی عادت اور غیر ذمہ دارانہ طرزِ زندگی ازدواجی رشتے کو کمزور کر رہے ہیں۔ جب ایک عورت کو اپنے شوہر پر بھروسہ نہیں رہتا، تو رشتہ قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اسلامی تعلیمات پر عمل سے ہی معاشرتی مسائل کا حل ممکن ہے

مفتی طارق مسعود کے مطابق، ہمارے معاشرے کے تمام مسائل کا حل دینِ اسلام میں موجود ہے۔ فیشن کو اسلامی حدود میں رکھا جائے، اسلحہ کو ضرورت کے تحت رکھنے کی جازت، اور ازدواجی رشتوں کو مضبوط بنانے کے لیے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ اگر ہم مغربی طرزِ زندگی کی تقلید کرنے کے بجائے اسلامی تعلیمات کو اپنائیں، تو ہم طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان، مردوں کی بے راہ روی اور دیگر سماجی برائیوں پر قابو پا سکتے ہیں

More

Comments
1000 characters