رمضان المبارک کا مہینہ جہاں عبادت، خیرات اور نیکیوں کے فروغ کا ذریعہ بنتا ہے، وہیں اس دوران چند ایسے مسائل بھی سامنے آتے ہیں جو عوام کی توجہ اور تحقیق کے متقاضی ہوتے ہیں۔ آج نیوز کی رمضان اسپیشل ٹرانسمیشن میں این جی اوز کی سرگرمیوں، ان کے مالیاتی نظام اور عوام کی تحقیق کی ضرورت پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔
رمضان اسپیشل ٹرانسمیشن میں میزبان شہریار عاصم نے عبداللہ احسان سید (چیئرمین، فاؤنڈیشن فائٹنگ پاورٹی) سے این جی اوز کے رمضان میں بڑھتے ہوئے رجحان پر سوال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ رمضان میں بے شمار این جی اوز سامنے آتی ہیں، جو سال بھر نظر نہیں آتیں لیکن جیسے ہی رمضان آتا ہےبرساتی مینڈکوں کی طرح وہ نکل آتی ہیں اور وہ فنڈز کے لیے متحرک ہو جاتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عوام کو اس حوالے سے کتنی تحقیق کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بھی حکم دیا ہے کہ خیرات کرتے ہوئے آنکھیں بند نہ کریں، بلکہ تحقیق کریں کہ عطیات واقعی حقدار تک پہنچ رہے ہیں یا نہیں۔
انہوں نے اس مسئلے کو بھکاری مافیا سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ جیسے رمضان میں بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے، ویسے ہی بہت سی نامعلوم این جی اوز بھی فنڈز جمع کرنے کے لیے سرگرم ہو جاتی ہیں۔ ان کا سوال یہ تھا کہ عوام کو عطیات دینے سے قبل کس حد تک چھان بین کرنی چاہیے؟
اس سوال پر عبداللہ احسان سید نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے، جس پر عوام کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ رمضان کے مہینے میں این جی اوز کے ذریعے تقریباً 600 ارب روپے کا ڈاکیومنٹڈ بجٹ گردش میں آتا ہے، جو کہ باقاعدہ طور پر اکاؤنٹس میں رجسٹر کیا جاتا ہے۔ مزید برآں، عوام کی طرف سے عطیہ کیے گئے غیر رجسٹر شدہ فنڈز تقریباً 2 ہزار ارب روپے تک پہنچ سکتے ہیں، جو زیادہ تر کیش کی صورت میں دیے جاتے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ این جی اوز کو رجسٹر کرانے کے لیے حکومت کا ایک مکمل طریقہ کار موجود ہے، جس میں مختلف مراحل اور ضوابط شامل ہیں۔ تاہم، پاکستان میں اس پر عمل درامد کروانے کی ضرورت ہے، عوام عام طور پر این جی اوز کو محض سوشل ورک سمجھتے ہیں، جبکہ مغربی دنیا میں یہ ایک باقاعدہ پیشہ ہے اور نہایت منظم انداز میں کام کیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان میں بھی یہی پروفیشنل ازم لایا جائے تو عطیات کے استعمال کو مزید شفاف اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔
عبداللہ احسان سید کا کہنا تھا کہ رمضان میں عطیات دینے سے پہلے مستحقین کی تصدیق کرنا ضروری ہے، کیونکہ جو شخص یا ادارہ واقعی حقدار نہیں، اسے عطیہ دینا ایک غلطی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بہت سی این جی اوز انتہائی معیاری اور پروفیشنل کام کر رہی ہیں، لیکن ان کے ساتھ ساتھ کئی ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو صرف رمضان میں چندہ جمع کرنے کے لیے ظاہر ہوتی ہیں۔ اس لیے عوام کو عطیات دینے سے پہلے تحقیق کرنی چاہیے، جیسے،
کیا این جی او رجسٹرڈ ہے؟
کیا ان کے کام کا کوئی ریکارڈ موجود ہے؟
کیا ان کے عطیات کا استعمال شفاف ہے؟ اور
کیا ان کے پراجیکٹس طویل مدتی اور پائیدار (Sustainable) ہیں؟
اگر این جی اوز کو پیشہ ورانہ انداز میں چلایا جائے اور عطیات کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے، تو یہ نہ صرف عوام کے اعتماد کو بڑھائے گا بلکہ پاکستان میں فلاحی کاموں کے نظام کو بھی مزید مستحکم کرے گا۔ شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عطیات دیتے وقت تحقیق کریں، تاکہ ان کی خیرات واقعی مستحق افراد تک پہنچے اور ملک میں ایک مؤثر فلاحی نظام کی راہ ہموار ہو۔