بچے اپنی معصوم مسکراہٹ اور کھیل کود سے زندگی میں رنگ بھر دیتے ہیں، مگر کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں زندگی کے اوائل دنوں سے ہی کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نو سالہ مارک الیپز ریکو بھی ایسا ہی ایک بچہ ہے جو ایک نایاب جینیاتی بیماری ’پراڈر وِلی سنڈروم‘ کا شکار ہے۔ یہ بیماری نہ صرف اس کی بھوک کو کبھی ختم نہیں ہونے دیتی بلکہ اس کے والدین کے لیے بھی ایک مستقل چیلنج بنی ہوئی ہے۔

پراڈر ولی سنڈروم کیا ہے؟

یہ ایک جینیاتی بیماری ہے جو تقریباً ہر30 ہزارمیں سے ایک بچے کو متاثر کرتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا بچے عام طور پر کمزور پٹھوں، کم نشوونما اور حد سے زیادہ بھوک (excessive appetite) جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ اس بھوک کو قابو میں رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے کیونکہ بے قابو کھانے سے یہ بچے تیزی سے موٹاپے کا شکار ہو سکتے ہیں، جو کئی دیگر طبی پیچیدگیوں کو جنم دے سکتا ہے۔

مارک کی پیدائش اور بیماری کی تشخیص

مارک کی والدہ آگا سیناری اور والد مارک الیپز ریکو اس وقت حیران رہ گئے جب ان کے بیٹے کی پیدائش کے فوراً بعد ڈاکٹرز نے بتایا کہ وہ کسی نامعلوم طبی پیچیدگی کا شکار ہے۔

آگا کو حمل کے دوران کسی بڑی پریشانی کا سامنا نہیں تھا، بس بچے کی حرکت معمول سے کم محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن جب 19 نومبر 2015 کو 41 ہفتوں کے بعد مارک کی پیدائش ہوئی، تو ماں نے فوراً محسوس کیا کہ وہ عام بچوں کی طرح نہیں ہے۔ وہ بے حد کمزور، بے حرکت اور خاموش تھا، نہ وہ رو رہا تھا اور نہ ہی عام طریقے سے دودھ پی سکتا تھا۔

پیدائش کے بعد مارک کو فوری طور پر آئی سی یو میں رکھا گیا اور اس کے جسمانی مسائل کا بغور معائنہ کیا گیا۔ شروع میں ڈاکٹروں کو شک ہوا کہ وہ کسی انفیکشن کا شکار ہے، مگر جب ایک جینیات کے ماہر ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا تو انہوں نے پرادر ولی سنڈروم کا شبہ ظاہر کیا۔ دسمبر 2015 میں ایک جینیاتی میتھائیلیشن ٹیسٹ کے ذریعے اس تشخیص کی تصدیق ہوگئی۔

ابتدائی مشکلات اور مارک کی بھوک کا نہ ختم ہونے والا مسئلہ

پیدائش کے بعد مارک کھانے میں شدید مشکلات کا شکار تھا، یہاں تک کہ رات کو بھی وہ بھوک سے نہیں جاگتا تھا۔ آگا کو الارم لگا کر اسے وقت پر دودھ پلانا پڑتا تھا کیونکہ اس کے پٹھے بہت کمزور تھے اور وہ خود سے چوسنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے مارک بڑا ہوا، اس کی بھوک ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ بن کر سامنے آئی۔ وہ ہمیشہ بھوکا محسوس کرتا ہے، چاہے وہ پانچ وقت کا کھانا ہی کیوں نہ کھا لے۔ اس کا دماغ کبھی بھی پیٹ بھرنے کا سگنل نہیں دیتا، جس کی وجہ سے وہ مسلسل کھانے کی خواہش رکھتا ہے۔

ماں باپ کی مستقل جدوجہد

مارک کی ماں آگا کہتی ہیں، ’وہ کھانے کے بارے میں ہر وقت سوچتا رہتا ہے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے کو یہ بیماری ہے، میں نے اپنا ہر لمحہ اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں گزارا۔ میں سوچتی رہی کہ اس بیماری کے ساتھ زندگی کیسے گزرے گی۔ میں مارک کے ساتھ خوشگوار وقت گزارنے کی بجائے مختلف ڈاکٹروں کے چکر کاٹتی رہی۔“

مارک کی مسلسل بھوک کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک سخت ڈائٹ پلان بنایا گیا ہے۔ اس کی ماں اسے یومیہ 1,100 کیلوریز فراہم کرتی ہیں جو اس کی عمر کے مطابق ضروری مقدار ہے۔ لیکن والدین کی پوری کوشش کے باوجود مارک کو کبھی بھی سیر ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔

زندگی میں نظم و ضبط، واحد حل

مارک کو موٹاپے سے بچانے کے لیے اس کے والدین نے اس کی خوراک اور روزمرہ کی سرگرمیوں کو سخت کنٹرول میں رکھا ہے۔ اس کے کھانے کا شیڈول طے شدہ اوقات پر ہوتا ہے، تاکہ وہ زیادہ نہ کھائے اور صحت مند رہے۔

یہ آگا اور ان کے شوہر کی انتھک محنت ہے کہ مارک، اس بیماری کے باوجود، ابھی تک موٹاپے کا شکار نہیں ہوا۔ لیکن انہیں معلوم ہے کہ انہیں زندگی بھر اس چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ پرادر ولی سنڈروم کا کوئی مکمل علاج موجود نہیں ہے۔

مارک کی کہانی ہم سب کے لیے سبق

مارک الیپز ریکو کی کہانی ہمیں صبر، ہمت اور والدین کی بے لوث محبت کا سبق دیتی ہے۔ بعض اوقات زندگی ہمیں ایسے امتحانات میں ڈال دیتی ہے جن کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ لیکن محبت، آگہی اور نظم و ضبط کے ذریعے ہم کسی بھی مشکل کا سامنا کر سکتے ہیں۔

مارک کی ماں کی طرح، دنیا میں کئی والدین ہیں جو اپنے بچوں کے ساتھ زندگی کے انوکھے چیلنجز جھیل رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ کہانی ایک حوصلہ افزا پیغام ہے کہ اگر آپ ہمت، صبر اور صحیح حکمت عملی اپنائیں تو آپ اپنے بچے کو ایک بہتر زندگی دے سکتے ہیں، چاہے حالات جتنے بھی مشکل کیوں نہ ہوں۔

More

Comments
1000 characters