رمضان، جو روحانی تطہیر اور اللہ سے قربت کا مہینہ ہے، بدقسمتی سے مادی مصروفیات اور تجارتی رجحانات کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ رمضان اسپیشل ٹرانسمیشن میں میزبان سدرہ اقبال نے اسی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے نشاندہی کی کہ ہم خریداری، افطار کی تیاری، اور عید کی تیاریوں میں اس قدر مصروف ہو گئے ہیں کہ اس بابرکت مہینے کی اصل روح پس پشت چلی گئی ہے۔
کیا ہم رمضان کی اصل روح کو سمجھ کر زندگی گزار رہے ہیں یا محض رسم و رواج اور روٹین کے مطابق عبادات کر رہے ہیں؟
معروف نعت خواں محمد اسد ایوب نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ بلکل ایسا ہی ہے، ہم دنیاوی مشاغل، سوشل میڈیا، اور دیگر مصروفیات میں الجھ کر وہ روحانی برکتیں حاصل نہیں کر پا رہے جو رمضان کا حقیقی مقصد ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس مہینے کو محض رسمی عبادات تک محدود نہ رکھیں بلکہ یکسوئی کے ساتھ اللہ کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
رمضان المبارک محض بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ تقویٰ، خود احتسابی، اور قربِ الہیٰ کا مہینہ ہے۔ عبادات کا مقصد بھی ظاہری رسومات تک محدود نہیں بلکہ روحانی ترقی، دل کی پاکیزگی، اور اللہ سے تعلق مضبوط کرنا ہے۔
عبادت کی اصل روح کیا ہے؟
عبادت کی اصل روح بندے اور اللہ کے تعلق کو مضبوط کرنا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
”وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ“ (الذاریات: 56)
”اور میں نے جن اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔“
مگر عبادت کا مطلب صرف نماز، روزہ اور ذکر نہیں، بلکہ اللہ کی رضا کے لیے زندگی گزارنا اس کا قرب حاصل کرنا ہے۔ عبادت کا حق تب ادا ہوگا جب ہمارے اخلاق بہتر ہوں، عبادت کے بعد بھی اگر ہمارا رویہ سخت، بے صبرا، اور دوسروں کے لیے نقصان دہ ہے تو عبادت کا مقصد پورا نہیں ہو رہا۔
تقویٰ اور خدا خوفی پیدا ہو، عبادت کا اصل فائدہ تب ہے جب وہ ہمارے اندر اللہ کی محبت اور گناہ سے بچنے کا جذبہ پیدا کرے۔ انسانیت کی خدمت شامل ہو، روزے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم بھوک اور تکلیف کو محسوس کریں اور غریبوں کا خیال رکھیں۔ اور دل اللہ کی طرف متوجہ ہو، اگر عبادت رسمی ہے، بغیر دل کی حاضری کے، تو وہ محض جسمانی مشق بن کر رہ جاتی ہے۔
کیا ہم عبادت کا حق ادا کر رہے ہیں؟
ہم میں سے بیشتر یا اکثر لوگ رمضان کو ایک روٹین کے طور پر گزار دیتے ہیں۔ سحری، افطار، نماز، تراویح، اور صدقہ سب کچھ ہوتا ہے، مگر اگر دل میں تبدیلی نہ آئے، تو ہم اصل روح سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ،
روزہ رکھتے ہیں مگر زبان پر قابو نہیں رکھتے۔
نماز پڑھتے ہیں مگر معاملات میں دھوکہ دہی نہیں چھوڑتے۔
صدقہ دیتے ہیں مگر دل میں تکبر اور ریاکاری رکھتے ہیں۔
اصل عبادت کا راستہ
اگر ہم واقعی عبادت کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں عبادت کو زندگی کے ہر پہلو میں اتارنا ہوگا۔ اللہ کے احکامات پر مکمل عمل کرنا ہوگا، صرف فرض عبادات نہیں بلکہ معاملات میں بھی دین کو اختیار کریں۔ ہمیں خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا، ہر دن سوچیں کہ کیا ہم پہلے سے بہتر انسان بن رہے ہیں؟ اور اخلاص کی دولت سے لبریز ہونا ہوگا، عبادات رسم نہ بنیں، بلکہ محبت اور خلوص سے ادا ہوں۔ اور سب سے بڑھ کر انسانوں کے حقوق کا معاملہ ہے، رمضان میں صرف اللہ کے حقوق ہی نہیں بلکہ بندوں کے حقوق بھی پورے کرنے ہونگے جیسا کہ کرنے کا حق ہے۔
اگر عبادت کے بعد بھی ہماری زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آ رہی، تو ہمیں اپنا جائزہ لینا ہوگا۔ عبادت کا اصل مقصد اللہ کا قرب اور اپنی اصلاح ہے، نہ کہ محض رسموں کی تکمیل۔ ہمیں چاہیے کہ رمضان کو ایک ’زندگی بدلنے والے موقع‘ کے طور پر دیکھیں، اور اس کی روح کو سمجھ کر اپنی روزمرہ کی زندگی میں نافذ کریں۔ تب ہی ہم عبادت کا حق ادا کر سکیں گے۔