رمضان المبارک میں ہونے والی سحری ٹرانسمیشن میں مشہور اینکر شہریار عاصم نے مفتی محسن آلزماں سے ایک نہایت اہم سوال کیا: ’بد دعا کا کتنا اثر ہوتا ہے اور کن لوگوں کی بد دعا سے بچنا چاہیے‘؟’
یہ سوال ہمارے معاشرے میں عمومی رویوں کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں بعض لوگ معمولی باتوں پر بھی بد دعا دے دیتے ہیں، جبکہ کچھ کی بد دعائیں ایسی ہوتی ہیں جو فوراً قبول ہو جاتی ہیں۔ مفتی محسن آلزماں نے اس حوالے سے نہایت حکمت اور دین کی روشنی میں جواب دیا۔
بد دعا دینے اور لینے سے گریز کیوں ضروری ہے؟
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بد دعا دے دیتے ہیں۔ کسی نے کوئی غلطی کردی، کسی نے دل آزاری کردی تو فورا بد دعا دینے لگتے ہیں۔ مگر ایسا کرنا درست نہیں۔
اسلام ہمیں صبر اور برداشت کا درس دیتا ہے، اور ناحق کسی کو بد دعا دینا جائز نہیں۔ اگر کوئی شخص بغیر کسی معقول وجہ کے بد دعا دیتا ہے تو وہ قبول نہیں ہوتی، کیونکہ یہ ظلم کے زمرے میں نہیں آتی۔ مفتی محسن آلزماں کے مطابق بعض لوگ معمولی باتوں پر جذبات میں آ کر بد دعا دے دیتے ہیں، مگر چونکہ وہ کسی حقیقی ظلم کا شکار نہیں ہوتے، اس لیے ایسی بد دعائیں اثر نہیں کرتیں۔
کن لوگوں کی بد دعا سے بچنا چاہیے؟
مفتی صاحب کے مطابق کچھ لوگوں کی بد دعا سے خاص طور پر بچنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی فریاد فوراً سنتا ہے۔
مظلوم کی بد دعا
حدیثِ مبارکہ میں آتا ہے کہ مظلوم کی بد دعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ اگر کسی پر ظلم کیا گیا ہو، اور وہ بدلہ نہ لے سکتا ہو تو اس کی آہ اور فریاد فوراً قبول ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں کسی پر ظلم کرنے سے سختی سے گریز کرنا چاہیے، ورنہ مظلوم کی بد دعا ہمیں دنیا اور آخرت میں نقصان پہنچا سکتی ہے۔
یتیم کی بد دعا
یتیم کا حق مارنا، اس کے ساتھ زیادتی کرنا، یا اس کے مال پر قبضہ کرنا سخت گناہ ہے۔ اگر یتیم کے دل سے آہ نکل جائے تو وہ بھی جلد قبول ہوتی ہے۔ حدیث میں یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک کا بار بار حکم دیا گیا ہے، کیونکہ وہ بے سہارا ہوتا ہے اور اللہ کی خاص رحمت کے زیرِ سایہ ہوتا ہے۔
والد کی بد دعا
والدین کی دعا اور بد دعا میں بہت اثر ہوتا ہے۔ اگر کوئی اولاد والد کے ساتھ گستاخی کرے، انہیں تکلیف دے یا ان کی عزت نہ کرے، تو والد اگر دل سے بد دعا دے دے تو وہ ضرور اثر کرتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ والدین کی دعائیں اور بد دعائیں رد نہیں ہوتیں، اس لیے ہر شخص کو والدین کا خاص خیال رکھنا چاہیے تاکہ ان کے دل سے دعا نکلے، نہ کہ بد دعا۔
بد دعا ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور ہمیں اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نہ تو ہمیں ناحق کسی کو بد دعا دینی چاہیے، اور نہ ہی کسی کا دل دکھا کر اس کی آہ لینے کی حماقت کرنی چاہیے۔ خاص طور پر مظلوم، یتیم اور والدین کی بد دعا سے بچنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی فریاد کو فوری سنتا ہے۔
لہٰذا، ہمیں ہمیشہ صبر، تحمل، اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ ہم کسی کے بھی دل کو تکلیف نہ دیں اور بد دعا سے محفوظ رہ سکیں۔