ہماری زندگی میں بچے صرف خوشی اور محبت ہی نہیں لاتے بلکہ نئی تحقیق کے مطابق وہ دماغ کو بھی تندرست اور جوان رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ”پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز“ (PNAS) میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بچوں کی پرورش انسان کے دماغی افعال کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ذہنی تنزلی کو روکتی ہے۔

تحقیق کے اہم نکات

یہ تحقیق 37,000 افراد پر کی گئی اور اسے اب تک کی سب سے بڑی تحقیق کہا جا رہا ہے جو والدین کے دماغی افعال پر مرکوز تھی۔ تحقیق کے مطابق، بچوں کی پرورش والدین کو جسمانی، ذہنی اور سماجی طور پر متحرک رکھتی ہے، جو دماغی صحت کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

بچوں کی پرورش دماغ کو کیسے جوان رکھتی ہے؟

اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ زیادہ بچوں کی پرورش کرنے والے افراد کا دماغ زیادہ متحرک اور مربوط پایا گیا، خاص طور پر وہ حصے جو حرکت، احساسات اور سماجی تعلقات سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ والدین بننا محض ایک جذباتی تجربہ نہیں بلکہ ایک دماغی ورزش بھی ہے جو اسے طویل عرصے تک تروتازہ رکھتی ہے۔

تھکن آپ کے دماغ میں ہے یا جسم میں؟ جاننا کیوں ضروری ہے؟

کیا یہ صرف ماؤں کے لیے فائدہ مند ہے؟

عام طور پر والدین سے متعلق تحقیقی مطالعے زیادہ تر ماں پر مرکوز ہوتے ہیں کیونکہ وہ حمل، پیدائش اور دودھ پلانے جیسے عوامل سے گزرتی ہیں۔ لیکن یہ تحقیق منفرد ہے کیونکہ اس میں 17,000 سے زیادہ مردوں کو بھی شامل کیا گیا۔ حیران کن طور پر، نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ صرف مائیں ہی نہیں بلکہ باپ بھی اس مثبت اثر سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بچوں کی پرورش کا دماغی صحت پر اثر صرف حمل یا حیاتیاتی تعلق تک محدود نہیں بلکہ پرورش اور دیکھ بھال کے مجموعی عمل سے جڑا ہوا ہے۔

زیادہ بچوں کا زیادہ فائدہ؟

تحقیق کے سربراہ اور روٹگرز سینٹر فار ایڈوانسڈ ہیومن برین امیجنگ ریسرچ کے پروفیسر، ایورام ہومز، کا کہنا ہے، ’ہم نے پایا کہ زیادہ بچوں کی پرورش کرنے والے والدین کے دماغی افعال میں نمایاں بہتری دیکھی گئی، خاص طور پر وہ حصے جو حرکت، احساسات اور سماجی تعلقات سے متعلق ہیں۔‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنے زیادہ بچے ہوں گے، دماغ اتنا ہی زیادہ فعال اور مربوط ہوگا۔

کیا واقعی بچوں کی پرورش ذہنی تنزلی سے بچاتی ہے؟

تحقیق میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ جن دماغی حصوں میں بچوں کی پرورش سے مثبت تبدیلیاں آتی ہیں، وہی حصے بڑھتی عمر کے ساتھ کمزور بھی ہوتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ والدین بننے سے عمر رسیدگی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور دماغ کو فعال رکھا جا سکتا ہے۔

مزید تحقیق کی ضرورت

یہ تحقیق فی الحال برطانیہ کے افراد پر کی گئی ہے، اور محققین کا کہنا ہے کہ اس نتیجے کو عالمی سطح پر سمجھنے کے لیے مزید مطالعے ضروری ہیں۔ اگر یہ نتائج مزید تصدیق شدہ ہوئے تو یہ تحقیق تنہائی، ڈیمنشیا اور دیگر دماغی بیماریوں کے علاج میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

دماغ خوف پر قابو کیسے پاتا ہے؟

کیا والدین بننے کے دباؤ کا بھی اثر ہوتا ہے؟

ظاہر ہے کہ بچوں کی پرورش ایک آسان کام نہیں۔ نیند کی کمی، مالی دباؤ اور ذمہ داریوں کا بوجھ اکثر والدین کو ذہنی تناؤ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ لیکن تحقیق کے مطابق، ان تمام مشکلات کے باوجود، والدین بننے کے طویل مدتی فوائد زیادہ اہم ہیں۔ یہ بچوں کے ساتھ مل کر سیکھنے، کھیلنے اور زندگی کے اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنے کا ایک قدرتی ذریعہ فراہم کرتا ہے، جو دماغی صحت کو مستحکم رکھتا ہے۔

اگرچہ جدید دور میں زیادہ بچے پیدا کرنا ایک ذاتی اور سماجی بحث کا موضوع بن چکا ہے، لیکن یہ تحقیق ایک نیا زاویہ پیش کرتی ہے۔ یعنی بچوں کی پرورش نہ صرف ایک سماجی ذمہ داری بلکہ ایک دماغی ورزش بھی ہے جو بڑھاپے میں بھی ذہنی چستی برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

More

Comments
1000 characters