شادی دو افراد کے درمیان ایک خوبصورت رشتہ ہوتا ہے، جو محبت، اعتماد اور باہمی عزت پر قائم رہتا ہے۔ لیکن جب یہ رشتہ زنجیروں میں بدل جائے، جب محبت خوف میں تبدیل ہو جائے اور جب عزت کے بجائے صرف رسمیں باقی رہ جائیں، تو کیا اسے زندگی بھر نبھانے کی ضد کرنی چاہیے؟ یا پھر ایک نئے آغاز کی طرف بڑھنا چاہیے؟
یہ سوال آج کل کے سماجی رجحانات میں مزید اہمیت اختیار کر چکا ہے، کیونکہ اب وہ وقت نہیں رہا جب طلاق کو صرف بدقسمتی یا ناکامی سمجھا جاتا تھا۔ کئی افراد، خاص طور پر خواتین، اس کو ایک نئی زندگی کے دروازے کے طور پر دیکھنے لگی ہیں۔ یہی سوچ ایک خاتون، عظیمہ احسان، نے اپنی سوشل میڈیا ویڈیو کے ذریعے پیش کی، جس میں وہ اپنی طلاق کے بعد جشن مناتی نظر آئیں۔
طلاق: ماتم یا آزادی؟
ہماری روایتی سوچ میں طلاق کو ایک سانحہ تصور کیا جاتا ہے، خاص طور پر خواتین کے لیے، جنہیں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی زندگی طلاق کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن عظیمہ احسان نے ان دقیانوسی خیالات کو چیلنج کیا۔ غرارا اور لانگ شرٹ پہنے، موسیقی کی دھن پر جھومتی یہ خاتون صرف ایک ناچ نہیں کر رہی تھیں بلکہ گویا کہہ رہی ہو کہ یہ زندگی کسی ایک رشتے میں قید نہیں ہوتی، اور نہ ہی عورت کی خوشی کا دار و مدار صرف شادی شدہ حیثیت پر ہوتا ہے۔
’زندگی ویسی نہیں جیسے مجھے ڈرایا گیا تھا‘
اپنی ویڈیو کے کیپشن میں عظیمہ نے لکھا، ’پاکستانی معاشرے میں طلاق کو عام طور پر موت کی سزا سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر خواتین کے لیے۔ مجھے بھی کہا گیا تھا کہ میری زندگی ختم ہو چکی ہے اور مجھے پچھتاوا ہوگا، لیکن دو سال بعد، میں جیتی جاگتی مثال ہوں کہ زندگی چلتی رہتی ہے۔ میں کام کرتی ہوں، اپنی کمائی پر جیتی ہوں، اپنی خوشیوں کی مالک ہوں اور اپنی ذات کو سنوار رہی ہوں۔،
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایک ناخوشگوار شادی میں زندگی گزارنا طلاق یافتہ ہونے سے زیادہ اذیت ناک ہے۔ میں نے یہ فیصلہ خوشی میں نہیں لیا، بلکہ میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ میری شناخت ایک طلاق یافتہ عورت کے طور پر ہو۔ لیکن میرے لیے اور میرے تین بچوں کے لیے یہ آزادی تھی۔ یہاں تک کہ میرے سابق شوہر کے لیے بھی یہ بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔‘
سماجی ردعمل کیا؟ تنقید یا حوصلہ افزائی؟
عظیمہ احسان کی ویڈیو نے انٹرنیٹ پر ہلچل مچا دی۔ کچھ لوگوں نے اس پر تنقید کی، جبکہ کئی افراد نے ان کی ہمت کو سراہا۔ ان کے مطابق، معاشرے میں ایسی خواتین کے لیے جگہ بننی چاہیے جو اپنی خوشی کے لیے کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ زندگی رکتی نہیں، آگے بڑھتی ہے۔
ہر انسان اپنی زندگی کا معمار خود ہوتا ہے۔ سماج کے طعنے، معاشرتی دباؤ اور خوف ہمیں محدود کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں یہ فیصلہ خود کرنا ہوتا ہے کہ ہم نے خوشیوں کو چننا ہے یا زبردستی مسکراہٹوں کے پیچھے ایک خالی زندگی گزارنی ہے۔