رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ حکومتِ سندھ قیمتیں مقرر تو کرتی ہے، مگر ان پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا؟ شہریوں کو ریلیف دینے کے لیے ڈی سی صاحبان کو کیا احکامات دیے گئے ہیں؟ انہی سوالات کا جواب آج نیوز کی خصوصی سحری ٹرانسمیشن میں معروف سیاستدان سعدیہ جاوید نے دیا۔
میزبان شہریار عاصم نے سوال کیا کہ ہر سال رمضان میں قیمتوں میں بےتحاشا اضافہ دیکھنے میں آتا ہے، ڈی سی صاحبان کی جانب سے چھاپے بھی مارے جارہے ہیں، مگر یہ مسئلہ حل کیوں نہیں ہوتا؟
سعدیہ جاوید نے اس پر تسلیم کیا کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، جو صرف سندھ نہیں بلکہ پورے پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’دنیا بھر میں جب کسی قوم کے مذہبی تہوار آتے ہیں تو اشیاء کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں، ڈسکاؤنٹ اور سیل لگا دی جاتی ہیں تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولت ملے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ رمضان سے پہلے ہی ذخیرہ اندوز مارکیٹ سے اشیاء غائب کر دیتے ہیں، اور پھر مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت اس مرتبہ زیادہ سختی کر رہی ہے اور قیمتوں پر کنٹرول کی کوشش جاری ہے۔ ان کے بقول، ’میں یہ نہیں کہوں گی کہ پورے شہر میں 100 فیصد کنٹرول ہو چکا ہے، لیکن بڑے بازاروں میں سبزی اور پھلوں کی قیمتوں پر قابو پایا گیا ہے، اور اس سال سبزیوں اور پھلوں میں مہنگائی نہیں ہے۔‘
میزبان نے ایک اور سوال میں چیک اینڈ بیلنس پر بات کی، جس پر سعدیہ جاوید نے واضح کیا کہ روزانہ کی بنیاد پر مانیٹرنگ ہو رہی ہے۔ اورکمشنر صاحب روزانہ ڈی سیز اور اے سیز سے رپورٹ لیتے ہیں، وزٹ کیے جا رہے ہیں، جہاں ضرورت پیش آتی ہے وہاں چھاپے بھی مارے جارہے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والی دکانوں کو سیل بھی کیا جا رہا ہے۔
یہ گفتگو ظاہر کرتی ہے کہ حکومتِ سندھ کی جانب سے اقدامات تو کیے جا رہے ہیں، مگر مہنگائی پر مکمل قابو پانے کے لیے مزید سخت پالیسیوں اور موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ رمضان میں عوام کو حقیقی ریلیف مل سکے۔