رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ ہر سال حکومت کی جانب سے دعوے کیے جاتے ہیں کہ قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے گا، لیکن عملی طور پر عوام کو مہنگائی کا سامنا ہی کرنا پڑتا ہے۔
مہنگائی کے اس مسئلے کی سنگینی پر بات کرتے ہوئے، آج نیوز کی رمضان اسپیشل ٹرانسمیشن میں میزبان شہریار عاصم نے معروف سیاسی شخصیت جنید بلند سے سوال کیا کہ حکومت کی موجودگی میں بھی اشیاء کی قیمتیں کیوں قابو میں نہیں آتیں؟ کیا وجہ ہے کہ رمضان میں پھل، سبزیاں اور دیگر ضروری اشیاء اتنی مہنگی ہوجاتی ہیں کہ عام آدمی کے لیے خریدنا مشکل ہو جاتا ہے؟
جنید بلند نے اس حوالے سے اپنے ذاتی تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں بھی ان معاملات پر اختلافات ہوتے ہیں اور وہ خود بازار جاکر خریداری کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ہی چیز مختلف علاقوں میں مختلف قیمتوں پر فروخت ہوتی ہے، جیسے کہ جو چیز ان کے علاقے میں 150 روپے کی مل رہی ہوتی ہے، وہی ڈیفنس یا کلفٹن میں 200 سے 300 روپے میں فروخت ہو رہی ہوتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کی جانب سے قیمتیں بڑھانے کا کوئی حکم نہیں ہوتا بلکہ باقاعدہ سرکاری نرخ مقرر کیے جاتے ہیں اور تمام دکانداروں کو انہی نرخوں پر اشیاء فروخت کرنی چاہئیں۔ تاہم، اگر کہیں گراں فروشی کی جاتی ہے تو اس پر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ایکشن لیتے اور کارروائی ہوتی ہے۔
قیمتوں پر کنٹرول کیسے ممکن ہے؟
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت قیمتیں مقرر کرتی ہے، تو گراں فروشی نہیں ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کے ساتھ ماتحت عملے کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرکاری احکامات پر سختی سے عملدرآمد کروائے۔ ۔ تاہم، عملی طور پر صورتحال یہ ہے کہ ہر سطح پر لوگ اپنی اپنی جگہ قیمتوں میں من مانی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جنید بلند نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک ہدایت دے اور ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک بہتر معاشرتی نظام تشکیل دے سکیں۔