پرندے ہمیشہ سے اپنی خوبصورتی اور رنگین پروں کی وجہ سے توجہ کا مرکز رہے ہیں، لیکن کچھ پرندے ایسے بھی ہیں جن کی خوبصورتی عام انسانی نظروں سے پوشیدہ رہتی ہے۔ پرندوں کی ایک خاص قسم، جسے ’جنت کے پرندے‘ کہا جاتا ہے، نہ صرف اپنی شوخ اور دلکش رنگت کے لیے مشہور ہے بلکہ ایک نئی تحقیق نے یہ حیران کن انکشاف کیا ہے کہ یہ پرندے ایسے رنگین اشارے بھی بھیجتے ہیں جو انسانی آنکھوں کے لیے ناقابلِ دید ہیں۔
حیاتیات میں روشنی پیدا کرنے کے دو بنیادی طریقے ہیں، بایولومینیسنس (جیسے جگنو کی روشنی) اور بایوفلوروسینس۔ بایوفلوروسینس وہ عمل ہے جس میں جاندار بلند توانائی والی روشنی (جیسے نیلی یا الٹرا وائلٹ) کو جذب کرکے کم توانائی والی روشنی خارج کرتے ہیں۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ’جنت کے پرندے‘ کی 45 میں سے 37 اقسام میں بایوفلوروسینس پائی جاتی ہے، یعنی ان کے پروں اور جسم کے مختلف حصے نیلی یا الٹرا وائلٹ روشنی میں چمکدار سبز یا پیلے رنگ میں جھلکتے ہیں۔
رنگین اشارے اور پرندوں کی دنیا
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ رنگین اشارے ممکنہ طور پر دو مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں، ایک تو ساتھی کی تلاش میں نر پرندے مادہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ان رنگین جھلکیوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔ دوسرے یہ اشارے علاقائی تنازعات کے لئے۔ دوسرے نر پرندوں کو دور رکھنے کے لیے بھی یہ روشنی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
پرندوں کی رنگ دیکھنے کی غیر معمولی صلاحیت
انسان صرف تین بنیادی رنگوں (سرخ، سبز اور نیلا) کو دیکھ سکتا ہے، جبکہ زیادہ تر پرندے الٹرا وائلٹ روشنی کو بھی دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
نر اور مادہ کی مشترکہ صفات والا کمیاب پرندہ دریافت ہوگیا
کبوتر، بطخیں، مرغابیاں اور دیگر کئی پرندے الٹرا وائلٹ روشنی میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن ’برڈز آف پیراڈائز‘ یا جنت کے پرندوں کی بینائی کے بارے میں زیادہ تحقیق نہیں ہوئی۔ تاہم، ان کے قریبی رشتہ دار جیسے کوا، فینٹیل اور مگپائی الٹرا وائلٹ روشنی دیکھ سکتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’جنت کے پرندے‘ بھی ان جھلملاتے رنگوں کو دیکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
تحقیقی تجربات اور حیرت انگیز دریافتیں
یہ تحقیق امریکہ کے نیویارک شہر میں امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے ماہرین نے کی۔ انہوں نے نیلی اور الٹرا وائلٹ روشنی کی مدد سے پرندوں کے پروں کا معائنہ کیا اور پایا کہ ان کے جسم کے مختلف حصے جیسے پیٹ، سینہ، سر اور گردن نمایاں طور پر چمکتے ہیں۔ کچھ پرندوں کے چونچ اور پر بھی چمکدار ہوتے ہیں جبکہ بعض کے منہ کے اندر بھی فلوروسینٹ نشانات پائے گئے۔
قدرت کا حیرت انگیز نظام
یہ دریافت سائنسدانوں کے لیے ایک نیا دروازہ کھولتی ہے کیونکہ اس سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ پرندے صرف اپنے شوخ رنگوں کی مدد سے بات چیت کرتے ہیں۔ مگر اب معلوم ہوا ہے کہ وہ خفیہ روشنیوں اور غیر مرئی رنگوں کے ذریعے بھی ایک دوسرے کو پیغامات بھیجتے ہیں۔
بایوفلوروسینس اور انسانی تحقیق
حیاتیاتی فلوروسینس صرف پرندوں تک محدود نہیں بلکہ دیگر جانداروں میں بھی دیکھی گئی ہے، جن میں مچھلیاں، کچھوے، سالمینڈر اور بعض ممالیہ جانور شامل ہیں۔
دشمن سے ہر قیمت پر بدلہ لینے والا کینہ پرور پرندہ
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ تحقیق نہ صرف قدرتی زندگی کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے بلکہ طبی اور تکنیکی ترقی کے لیے بھی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، جیلی فش میں پائے جانے والے گرین فلوروسینٹ پروٹین کا استعمال میڈیکل ریسرچ میں کیا جاتا ہے، جہاں اسے خلیات کی نشوونما اور کینسر کی تحقیق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ تحقیق ایک واضح مثال ہے کہ قدرتی دنیا میں ابھی بہت کچھ دریافت ہونا باقی ہے۔ جنت کے پرندوں کی یہ پوشیدہ روشنی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ فطرت کی خوبصورتی ہماری نظروں سے کہیں زیادہ وسیع اور حیرت انگیز ہے۔
سائنسی تحقیق آگے بڑھ رہی ہے، اور جیسے جیسے ہم فطرت کے ان حیرت انگیز پہلوؤں کو سمجھنے لگیں گے، ویسے ویسے ہمیں اپنی دنیا کی پیچیدگی اور خوبصورتی کا اندازہ ہوگا۔