تاجکستان کی حکومت نے خواتین کے لباس کے لیے نئے رہنما اصول مرتب کرنے کا اعلان کیا ہے، جسے ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا جائے گا۔ یہ اقدام ملک میں خواتین کے لباس پر حکومتی کنٹرول کو مزید سخت کرنے کی ایک کڑی ہے۔
لباس اور ثقافتی شناخت
وسطی ایشیا کے مسلم اکثریتی ملک تاجکستان میں حکومت سماجی امور پر سخت کنٹرول رکھتی ہے، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے۔ گزشتہ برس حکومت نےقومی ثقافت سے مطابقت نہ رکھنے والے لباس پر پابندی عائد کی تھی اور اب ’اسلامی ثقافتی اثرات‘ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
تاجکستان کا پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے کا عندیہ، مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط
تاجکستان میں روایتی خواتین کا لباس عام طور پر رنگ برنگی کڑھائی شدہ لمبی آستینوں والی قمیص پر مشتمل ہوتا ہے، جو ڈھیلے پاجامے کے ساتھ پہنی جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے اب ایک نئی کتاب شائع کی جا رہی ہے جو خواتین کے لیے لباس کے متعلق مزید ’سفارشات‘ فراہم کرے گی۔
نئی کتاب میں کیا ہوگا؟
وزارت ثقافت کے ایک عہدیدار خورشید نظامی کے مطابق، یہ کتاب جولائی میں شائع کی جائے گی اور ابتدا میں عوام کو مفت فراہم کی جائے گی۔ اس کتاب میں بتایا جائے گا کہ مختلف عمر کی خواتین کو کس موقع پر کیا پہننا چاہیے، چاہے وہ گھر پر ہوں، تھیٹر میں ہوں یا کسی تقریب میں شریک ہوں۔
وزیراعظم دو روزہ دورے پر تاجکستان پہنچ گئے
نظامی کے مطابق، یہ کتاب پہلے شائع ہونے والی گائیڈز سے زیادہ معیاری ہوگی، جس میں اعلیٰ معیار کی طباعت، خوبصورت تصاویر، تاریخی حوالہ جات اور جامع وضاحتیں شامل ہوں گی۔
اسلامی لباس پر پابندی
اگرچہ تاجکستان ایک سرکاری طور پر سیکولر ریاست ہے، لیکن اس کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی و لسانی روابط بھی موجود ہیں۔ تاہم، تاجک حکومت اسلامی لباس، خاص طور پر حجاب، کو عوامی زندگی میں ممنوع قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ صدر امام علی رحمان نے حجاب کو سماجی مسئلہ قرار دیا ہے، اور حکومتی ادارے خواتین کو روایتی تاجک لباس پہننے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ، تاجکستان میں ’مذہبی انتہا پسندی‘ سے نمٹنے کے نام پر داڑھی رکھنے پر بھی غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی گئی ہے، اور لمبی داڑھیوں کو مشکوک سمجھا جاتا ہے۔
انتہا پسندی کے خلاف سخت اقدامات
حالیہ برسوں میں تاجکستان میں اسلام کے نام پر دہشتگردی کے خلاف کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں۔ گزشتہ سال، چار تاجک شہریوں پر ماسکو کے قریب ایک کنسرٹ ہال میں قتل عام کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، 2015 میں داعش کے عروج کے دوران بہت سے تاجک شہری اس تنظیم میں شامل ہو گئے تھے، جس کے بعد حکومت نے انتہا پسندی کے خلاف مزید سخت پالیسیاں اپنانا شروع کیں۔
امریکا میں تاجکستان کے 10 باشندے داعش سے تعلق کے شبہے میں گرفتار
تاجکستان میں خواتین کے لباس سے متعلق نئے رہنما اصول اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ حکومت سماجی معاملات پر اپنی گرفت مزید سخت کر رہی ہے۔ مذہبی اور ثقافتی شناخت کے درمیان تنازعہ جاری ہے، اور یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ تاجک حکومت روایتی ثقافت کو برقرار رکھنے کے نام پر اسلامی لباس اور داڑھی جیسی مذہبی علامات پر سختی کر رہی ہے۔ یہ پالیسیز ملک میں آزادی اور سماجی روایات کے درمیان توازن پر بھی سوالات اٹھاتی ہیں۔