بھارتی فلم انڈسٹری کی تاریخی تناظرمیں فلمائی گئی فلم ’جودھا اکبر‘ کی ریلیز کو 17 برس گزر گئے۔ باکس آفس انڈیا کے مطابق اس فلم کا بجٹ 55 کروڑ بھارتی روپے تھا جبکہ بھارت میں اس نے 56 کروڑ کی کمائی کی تھی جبکہ دنیا بھر میں اس کی کمائی مجموعی طور پر 107 کروڑ 78 لاکھ بھارتی روپے تک پہنچی۔ اس کامیابی کے باجود مگر فلم میں چند تاریخی غلطیاں ہیں جو حال ہی میں فلم دیکھنے والوں نے وائرل کی ہیں۔
انڈیا میں آلو
جودھا اکبر کے ایک منظر میں آلو کو دیگر سبزیوں کے ساتھ دکھایا گیا، تاریخی اعتبار سے یہ درست نہیں کیونکہ اکبر کے دور میں بھارت میں آلو کی کاشت نہیں ہوتی تھی۔
بھارت میں آلو 17ویں صدی عیسویں میں جنوبی امریکہ سے آئے جبکہ اکبر کا دور سولہویں صدی عیسویں کا تھا۔
اسٹین لیس اسٹیل
فلم میں دکھایا گیا ہے کہ جب جودھا کی شادی ہوتی ہے اور وہ آگرہ پہنچتی ہیں تو ایک راجپوت کنیز اُن کو ایک ایسے برتن میں چاول پیش کرتی ہیں جو اسٹین لیس اسٹیل کا ہے۔
اُس دور میں اسٹین لیس اسٹیل کے برتن موجود ہی نہ تھے۔ بھارت میں یہ میٹیریل 20ویں صدی میں متعارف کیا گیا تھا۔
اردو کا غلط محاورہ
فلم کے ایک سین میں بولے گئے ڈائیلاگ میں غلط اردو بولی گئی۔ شہنشاہ اکبر ایک موقع پر شاہی باورچی کے تیارکردہ کھانے کو چکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ ”خود جہاں پناہ اس بات پر انکارِ حرف نہیں اُٹھا سکتے۔“
دلچسپ بات ہے کہ اس صریح غلطی کو بھی درست نہیں کیا گیا۔ انکارِ حرف غلط ہے جبکہ درست اصطلاح حرفِ انکار ہے۔
موم بتی کا وجود
فلم کے مختلف مناظر میں موم بتیوں کا استعمال کیا گیا ہے جبکہ جیسی موم بتیاں دکھائی گئیں وہ اکبر کے دور میں ہندوستان میں ناپید تھیں۔
ایسی موم بتیاں انڈیا میں 1830 میں متعارف کرائی گئیں۔ اس طرح یہ ایک اور تاریخی غلطی ہے۔
جودھا بائی کا نام
فلم میں جودھا بائی کو اکبر کی راجپوت ملکہ دکھایا گیا ہے۔ تاہم خود بادشاہ اکبر کی سوانح حیات میں اُن کی کسی ملکہ کا نام جودھا بائی نہیں بتایا گیا۔
جہانگیر کی یادداشتوں میں ایک حوالہ ملتا ہے کہ اُن کی والدہ ایک ہندو راجپوت شہزادی تھیں جنہوں نے شادی کے بعد مریم زمانی کا نام اختیار کیا۔