مشہور بالی ووڈ اداکار اور کامیڈین راجپال یادو نے حالیہ دنوں پاکستان کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا اور پاکستانی کامیڈینز کے بارے میں اپنی رائے دی۔ اس کے علاوہ، انہوں نے پاکستان کے خلاف بننے والی بھارتی فلموں پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
کامیڈین راجپال یادو اپنی بہترین کامک ٹائمنگ اور معصوم پرفارمنس کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے کئی ہٹ ہندوستانی فلموں میں یادگار کردار ادا کیے، جن میں بھول بھولیا، ہنگامہ، چپ چپ کے، ہیرا پھیری، دھول، گرم مسالہ، مجھ سے شادی کروگی، مالمال ویکلی، بھاگم بھاگ اور پارٹنر شامل ہیں۔
پاکستانی لڑکوں نے مجھے رلا دیا ہے، راکھی ساونت
راجپال یادو نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور دنیا کے دیگر حصوں میں بھی یکساں طور پر مقبول ہیں۔
حال ہی میں، راجپال یادو نے دبئی میں پاکستان کے معروف ڈیجیٹل تخلیق کار نادر علی کے ساتھ ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کی۔ اس دوران انہوں نے پاکستان کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا اور پاکستان مخالف فلموں پر اپنی رائے بھی شیئر کی۔
پاکستان مخالف فلموں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے راجپال یادو نے کہا کہ یہ ایک بہت حساس سوال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں ہر سال تقریباً 500 فلمیں بنتی ہیں، جن میں کچھ تفریحی، کچھ ایکشن اور کچھ تاریخ یا تنازعات پر مبنی ہوتی ہیں۔
خودکشی کرنے کے خیالات آئے، دیپیکا پڈوکون کی ڈپریشن میں کس نے مدد کی؟
تاہم، ان کا ماننا ہے کہ آخر کار، اس میں کام کرنے والے تمام انسان ہیں اور یہ فلمیں ایک فنکار کی تخلیقی صلاحیت کا حصہ ہوتی ہیں، جو جذبات کو ایک کردار کے ذریعے ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ ڈائریکٹر پربھی منحصر ہے۔
ان کامزید کہنا تھا کہ ان 500 فلموں میں سے صرف دو فلمیں تاریخ یا تنازعات پر مبنی ہیں جبکہ زیادہ تر تفریح کے لیے بنائی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے ایک بار ایک فلم دی ہیرو کی تھی جس میں میں نے اسی قسم کا کردار ادا کیا تھا۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ میچورہونے اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد، میں نے کسی بھی ایسی فلم کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا جس سے پاکستان یا ہندوستان کے جذبات مجروح ہوں۔
راجپال یادو نے اپنے پسندیدہ پاکستانی کامیڈینز کے بارے میں بات کرتے ہوئے معین اختر اور عمر شریف کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
ان کے مطابق، عمر شریف اور معین اختر اپنے فن کے بادشاہ تھے اور وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے اسکرین پر دلکش اور یادگار پرفارمنس دیتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی صلاحیتوں کی بدولت آپ انہیں دیکھتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی اسکرین نہیں چھوڑ سکتے تھے ، خاص طور پر لوز ٹاک جیسے پروگراموں میں جہاں ہر مکالمہ برجستہ بے مثال ہوتا تھا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ہم عمر شریف کی آڈیو کیسٹ سنتے تھے کیونکہ وہ قدرتی طور پر تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال تھے اور واقعی میں ایک بڑے اسٹارتھے۔