کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایک ہزار سال بعد انسان کیسا نظر آئے گا؟ کیا وہ آج سے زیادہ ذہین ہوگا یا کم؟ کیا وہ زیادہ خوبصورت ہوگا یا عجیب؟ ماہرین اور مصنوعی ذہانت نے مل کر کچھ دلچسپ پیشین گوئیاں کی ہیں، جو حیران کن بھی ہیں اور کچھ پریشان کن بھی۔
ماہرین کے مطابق، قدرتی ارتقاء کے نتیجے میں انسان زیادہ پرکشش ہوتا جائے گا۔ خواتین چونکہ زیادہ انتخاب کریں گی، اس لیے مردوں میں وہ خوبیاں زیادہ نظر آئیں گی جو خواتین کو پسند ہیں، جیسے چوڑے جبڑے اور متناسب چہرے۔ اسی طرح، خواتین کی جلد ہموار اور زیادہ چمکدار ہو جائے گی۔
یہ بھی پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں انسانوں کی جلد کا رنگ گہرا ہو جائے گا، خاص طور پر گرمی کے زیادہ اثر کی وجہ سے۔ لوگ زیادہ یکساں نظر آئیں گے، یعنی نسلی تنوع کم ہو سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ آبادیوں میں انسان کا قد چھوٹا ہو سکتا ہے، کیونکہ لوگ اب لمبی عمر کے بجائے جلدی بلوغت حاصل کر رہے ہیں۔ کچھ چھوٹے قد کے گروہ اسی اصول کے تحت ترقی کر چکے ہیں، جہاں زندگی سخت ہوتی ہے اور جسمانی نشوونما کی بجائے جلدی بالغ ہونا زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔
مستقبل کے انسان کا دماغ بھی چھوٹا ہو سکتا ہے؟
یہ شاید سب سے حیران کن بات ہو! ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، ہم کمپیوٹرز پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے دماغ کا سائز کم ہو سکتا ہے۔
تحقیق کے مطابق، جب جانوروں کو پال لیا جاتا ہے، تو ان کے دماغ کا سائز کم ہونے لگتا ہے۔ جیسے بھیڑوں کا دماغ 24 فیصد، گایوں کا 26 فیصد اور کتوں کا 30 فیصد چھوٹا ہو چکا ہے۔ اسی بنیاد پر کچھ سائنس دانوں کو خدشہ ہے کہ ہم بھی ’پالتو بندروں‘ کی طرح ہو سکتے ہیں، جو زیادہ سوچنے کے بجائے خودکار نظام پر انحصار کریں گے۔
کیا خیال ہے یہ سب اچھا ہے یا برا؟
یہ کہنا مشکل ہے! اگرچہ انسان زیادہ خوبصورت ہو جائے گا، لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ زیادہ ذہین نہ ہو۔ ٹیکنالوجی کی بدولت ہم کئی چیزیں مشینوں پر چھوڑ دیں گے، اور شاید اپنی ذہنی صلاحیتوں کو کم استعمال کریں۔
یہ سب بیشک اندازے ہیں مگر ایک بات طے ہے، انسان ہمیشہ ارتقاء کے عمل میں رہتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کا استعمال اپنی ذہانت بڑھانے کے لیے کریں یا خود کو سہل پسندی میں دھکیل دیں۔