خوف ایک فطری جذبہ ہے، جو ہمیں خطرات سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔ بچپن میں ہم تیز آوازوں یا اندھیرے سے ڈرتے ہیں، مگر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، ہم بعض خوفوں پر قابو پانا سیکھ لیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارا دماغ یہ کیسے کرتا ہے؟
حال ہی میں لندن یونیورسٹی کے سینسبری ویلکم سینٹر میں کی گئی ایک تحقیق نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔ سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ دماغ کس طرح خوف کے ردعمل کو کم کرتا ہے اور سیکھتا ہے کہ کون سا خطرہ حقیقت میں نقصان دہ نہیں ہے۔
اس تحقیق کے نتائج نہ صرف فوبیا، اضطراب (Anxiety)، اورپوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) جیسے ذہنی عوارض کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں بلکہ ان کے علاج کے لیے بھی راہیں کھول سکتے ہیں۔
تحقیق میں چوہوں کو ایک خاص تجربے سے گزارا گیا۔ ان پر پرندے کے حملے کی نقل کرتے ہوئے ایک سائے کو بار بار تیزی سے قریب آتے ہوئے دکھایا گیا۔ ابتدائی طور پر چوہے فوراً چھپنے کی کوشش کرتے، لیکن بار بار ایسا ہونے پر جب انھیں کوئی حقیقی خطرہ محسوس نہ ہوا تو انھوں نے بھاگنے کے بجائے پرسکون رہنا سیکھ لیا۔ اس سے سائنس دانوں کو یہ سمجھنے کا موقع ملا کہ دماغ کیسے خوف پر قابو پانے کا عمل سیکھتا ہے۔
سماجی دباؤ اور خواہشات، مردوں میں ڈپریشن کی بڑی وجوہات کیا ہیں؟
اس تجربے میں ایک اہم دریافت یہ ہوئی کہ وینٹرولیٹرل جینیکولیٹ نیوکلئس نامی دماغی حصہ خوف کو کم کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ جب اسے متحرک کیا جاتا ہے، تو خوف کا ردعمل کم ہو جاتا ہے، اور ہم بے ضرر چیزوں سے ڈرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ عمل کیسے ہوتا ہے؟
دماغی نیورونز ایک خاص قسم کے کیمیکل ’اینڈوکینابینوئڈز‘ خارج کرتے ہیں، جو خوف کو بڑھانے والے سگنلز کو روکتے ہیں۔ اس سے دماغ خوف کو کم کرنا سیکھتا ہے اور غیر ضروری گھبراہٹ یا اضطراب کو قابو میں لاتا ہے۔
یہ تحقیق بہت اہم کیوں ہے؟
یہ سٹڈی بتاتی ہے کہ اگر دماغ خوف پر قابو پانے کا عمل صحیح طریقے سے انجام نہ دے تو فوبیا، پی ٹی ایس ڈی اور دیگر ذہنی عوارض پیدا ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بعض لوگ کسی خاص چیز (جیسے اونچائی، اندھیرا، یا پانی) سے شدید ڈرتے ہیں، حالانکہ وہ خطرناک نہیں ہوتی۔ اسی طرح، پی ٹی ایس ڈی کے مریض ماضی کے تکلیف دہ واقعات کے خوف سے باہر نہیں نکل پاتے۔
یہ تحقیق نہ صرف ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ خوف پر قابو کیسے پایا جاتا ہے بلکہ یہ دماغی عوارض کے لیے نئے علاج کے دروازے بھی کھول سکتی ہے۔
سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ خوف ایک سیکھنے کا عمل ہے، اور ہم اسے مثبت انداز میں قابو میں لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے چند کارآمد طریقے یہ ہیں۔
خوف کا سامنا کریں، اگر آپ کسی چیز سے ڈرتے ہیں، تو اسے آہستہ آہستہ اپنی زندگی میں شامل کریں۔ جیسے اگر آپ اونچائی سے ڈرتے ہیں، تو پہلے کم اونچائی پر جائیں، پھر آہستہ آہستہ زیادہ۔
ریلیکسنگ تکنیک اپنائیں، گہری سانس لینے، میڈیٹیشن اور یوگا جیسے طریقے دماغ کو پرسکون کرتے ہیں اور خوف کے ردعمل کو کم کرتے ہیں۔
مثبت سوچ اپنائیں، اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے خود کو بار بار یقین دلائیں کہ آپ مضبوط ہیں اور خوف پر قابو پا سکتے ہیں۔
انسانی دماغ سوچنے میں مصنوعی ذہات سے بھی سست نکلا، تحقیق میں حیران کن انکشاف
پیشہ ورانہ مدد حاصل کریں، جی ہاں اگر خوف شدید ہو تو کسی ماہرِ نفسیات یا تھراپسٹ کی مدد لیں، جو آپ کو سائنسی بنیادوں پر خوف کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
یہ حیران کن ہے کہ ہمارا دماغ خوف پر قابو پانے کی کتنی زبردست صلاحیت رکھتا ہے، اس تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ خوف کا علاج ممکن ہے اور ہمارا دماغ وقت کے ساتھ سیکھ سکتا ہے کہ کون سے خطرات حقیقی ہیں اور کون سے بے ضرر۔ اگر ہم درست طریقے اپنائیں، تو اپنے خوف پر قابو پا سکتے ہیں اور ایک خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں۔