سائنسدانوں نے ایک نئی تحقیق میں وقفے وقفے سے روزہ رکھنے (Intermittent Fasting) اور الزائمر کی بیماری کے درمیان ایک اہم تعلق دریافت کیا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق، روزانہ مخصوص اوقات میں کھانے کی عادت نہ صرف یادداشت کو بہتر بنا سکتی ہے بلکہ الزائمر کی علامات کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، روزانہ 10 گھنٹے کی مخصوص مدت میں کھانے سے نہ صرف علمی صلاحیتیں (Cognitive Abilities) بہتر ہو سکتی ہیں بلکہ دماغ میں امائلائیڈ پروٹین کے ذخائر کو کم کیا جا سکتا ہے، جو الزائمر کی ایک بڑی علامت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص صبح 8 بجے ناشتہ کرتا ہے، تو شام 6 بجے تک اسے کھانے سے رک جانا چاہیے۔
تحقیق میں چوہوں پر کیے گئے تجربات سے معلوم ہوا کہ وقت کی پابندی کے ساتھ کھانے سے ان کی یادداشت اور نیند کے انداز میں بہتری آئی۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ غذا نہ صرف ڈیمنشیا (دماغی کمزوری) سے بچا سکتی ہے بلکہ اس کی علامات کو بھی کم کر سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تقریباً 80 فیصد الزائمر کے مریضوں میں سرکیڈین تال (Circadian Rhythm) یعنی جسم کی قدرتی حیاتیاتی گھڑی میں خلل پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے انہیں نیند میں دشواری ہوتی ہے اور رات کے وقت ان کی ذہنی حالت مزید بگڑ جاتی ہے۔
سرکیڈین تال جسم کے 24 گھنٹے کے اندرونی نظام کو کنٹرول کرتا ہے، جس میں نیند، جسمانی درجہ حرارت، میٹابولزم اور ہارمونی نظام شامل ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ الزائمر کے مریض اکثر رات کے غیر متوقع اوقات میں جاگ جاتے ہیں اور الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے ان کے زخمی ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الزائمر کے کئی مریضوں کو رہائشی دیکھ بھال کی ضرورت پیش آتی ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو کی نیورو سائنس دان، ڈاکٹر پاؤلا ڈیسپلاٹس (Paula Desplats)، جو اس تحقیق کی سربراہی کر رہی ہیں، کہتی ہیں،
’ ہم نے پہلے یہ سمجھا تھا کہ الزائمر کے مریضوں میں سرکیڈین تال کی خرابی نیوروڈیجنریشن (دماغی خلیوں کی تباہی) کا نتیجہ ہے، لیکن اب ہمیں معلوم ہو رہا ہے کہ یہ خرابی خود الزائمر کے آغاز کا ایک سبب بھی ہو سکتی ہے۔’
تحقیق میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ چوہوں کو شامل کیا گیا، جنہیں الزائمر جیسی علامات لاحق تھیں، جیسے یادداشت کی کمزوری، رات کے وقت بے چینی اور دماغ میں امائلائیڈ پروٹین کے ذخائر۔ ان چوہوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا، ایک گروپ کو دن بھر کھانے کی آزادی دی گئی۔
دوسرے گروپ کو روزانہ صرف 6 گھنٹوں کے اندر کھانے کی اجازت تھی، جبکہ باقی 18 گھنٹے وہ روزہ رکھتے۔
نتائج حیران کن تھے!
وہ چوہے جو مخصوص کھانے کے اوقات پر عمل پیرا رہے، ان میں الزائمر سے جُڑے درجنوں جینز میں مثبت تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ ان کے علمی امتحانات کے نتائج بہتر ہوئے، نیند کے مسائل کم ہوئے اور ان کے سرکیڈین تال میں بہتری آئی۔
مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ وقت کی پابندی کے ساتھ کھانے سے نہ صرف نئے امائلائیڈ پروٹین کے بننے کی رفتار کم ہو گئی بلکہ پہلے سے موجود امائلائیڈ تختیاں بھی کم ہونے لگیں، جس کا مطلب ہے کہ دماغ انہیں خود صاف کرنے لگا تھا۔
روزہ رکھنے کا رجحان دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ یہ نہ صرف دماغی صحت کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ، بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے۔ انسولین کی سطح متوازن رکھتا ہے، جس سے ذیابیطس کے مریضوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ جسمانی میٹابولزم کو بہتر بناتا ہے، جس سے وزن میں کمی ممکن ہوتی ہے۔ نیند، ہارمونی نظام اور مجموعی دماغی صحت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ کئی معروف شخصیات بھی اس ڈائیٹ کو اپنا چکی ہیں، ہالی ووڈ اداکارہ جینیفر اینسٹن کہتی ہیں، ’ میں وقفے وقفے سے روزہ رکھتی ہوں، اور صبح کے وقت کھانے سے پرہیز کرتی ہوں۔ میں نے 16 گھنٹے تک بغیر کھانے کے رہنے سے اپنی توانائی اور صحت میں نمایاں بہتری محسوس کی ہے۔’
اس کے علاوہ بیونسے، ہیو جیک مین، وینیسا ہجینس اور جمی کامل بھی اس طرزِ زندگی پر عمل کرتے ہیں۔
یہ تحقیق حیرت انگیز اور دلچسپ ہے لیکن ایک اہم بات یہ کہ جس چیز کو سائنس آج دریافت کر رہی ہے یا انکشاف کر رہی ہے، وہ حقیقت میں اسلام میں چودہ سو سال پہلے ہی واضح کر دی گئی تھی۔
رمضان کے روزے، جن میں مسلمان سال بھر میں ایک مہینے تک روزانہ 14 سے 16 گھنٹے بغیر کھانے پینے کے رہتے ہیں، صرف روحانی عبادت نہیں بلکہ صحت کے لیے بھی بے شمار فوائد رکھتے ہیں۔ جبکہ جدید تحقیق اب یہ ثابت کر رہی ہے کہ وقفے وقفے سے روزہ رکھنا دماغی صحت، نیند کے معیار اور جسم کی قدرتی حیاتیاتی گھڑی (سرکیڈین تال) کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔