انسانی دماغ قدرت کا ایک حیرت انگیز شاہکار ہے، جو نہ صرف سوچنے، سمجھنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ لاکھوں بیرونی محرکات کو بھی پروسیس کرتا ہے۔ جدید نیوروسائنس نے دماغ کی رفتار اور اس کی معلومات پروسیسنگ کی صلاحیت کے بارے میں کئی دلچسپ انکشافات کیے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، انسانی دماغ میں تقریباً 86 بلین (8.6 ارب) نیورانز موجود ہوتے ہیں۔ ہر نیوران دوسرے نیورانز سے ہزاروں کنکشنز کے ذریعے جُڑا ہوتا ہے، جنہیں سیناپس (Synapses) کہا جاتا ہے۔ یہ کنکشنز 100 ٹریلین سے زیادہ ہوسکتے ہیں، جو انسانی دماغ کو دنیا کا سب سے پیچیدہ نیٹ ورک بناتے ہیں۔
یہ جاننا حیران کن ہے کہ انسانی دماغ معلومات کو 120 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے منتقل کر سکتا ہے۔ تاہم، اگر ہم معلومات کی پروسیسنگ کی مجموعی رفتار پر غور کریں تو کچھ سائنس دانوں کے مطابق، انسانی دماغ 10 بِٹس فی سیکنڈ کی رفتار سے معلومات کو مؤثر طریقے سے پروسیس کرتا ہے۔
یہ ایک دلچسپ تضاد ہے، کیونکہ ہمارے حسیاتی نظام (Sensory System) جیسے آنکھیں، کان، جلد اور ناک، بیرونی ماحول سے تقریباً 1 ارب بِٹس فی سیکنڈ کی شرح سے معلومات اکٹھی کرتے ہیں، مگر دماغ ان میں سے بہت کم مقدار میں، صرف 10 بِٹس فی سیکنڈ کو پروسیس کرتا ہے۔
مصنوعی ذہانت نے ریڈ لائن پار کرلی، اپنے جیسے دوسرے بنانے شروع کردئے
اگرچہ یہ رفتار کمپیوٹرز کے مقابلے میں سست معلوم ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک بہت مؤثر حکمت عملی ہے۔ انسانی دماغ کے نیورانز انفرادی طور پر تیزی سے کام کر سکتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر دماغ زیادہ مؤثر فیصلے کے لیے معلومات کو فِلٹر کرتا ہے تاکہ ہم صرف اہم ترین معلومات پر توجہ مرکوز کر سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایک شطرنج کا کھلاڑی بیک وقت بے شمار چالوں کے امکانات کا تجزیہ نہیں کر سکتا، بلکہ وہ ایک وقت میں صرف ایک یا چند امکانات پر توجہ دیتا ہے۔
اب ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ کیا مشینیں انسان سے زیادہ بہتر سوچ سکتی ہیں؟
اگر ہم معلومات کو پروسیس کرنے کی رفتار کے لحاظ سے دیکھیں تو انسانی دماغ مشینوں کے مقابلے میں بظاہر سست سوچتا ہے۔ کمپیوٹر یا مصنوعی ذہانت (AI) ایک سیکنڈ میں اربوں بِٹس کی معلومات پروسیس کر سکتی ہے، جبکہ انسانی دماغ عام طور پر 10 بِٹس فی سیکنڈ کے حساب سے فیصلے اور سوچ کے عمل میں استعمال کرتا ہے۔
لیبارٹری میں تیار کیا گیا انسانی دماغ خلا جا کر بوڑھا کیوں ہوگیا؟
مشینیں پیرالیل پروسیسنگ (Parallel Processing) یعنی بیک وقت کئی کام انجام دے سکتی ہیں، جبکہ انسانی دماغ زیادہ تر سیریل پروسیسنگ (Serial Processing) یعنی ایک وقت میں ایک سوچ پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔
پھر بھی انسانی دماغ مشینوں سے بہتر کیوں ہے؟
اسکی وجہ تخلیقی صلاحیت ہے کیونکہ دماغ جذبات، تجربات اور تخلیقی صلاحیت کے امتزاج سے کام کرتا ہے، جبکہ مشینیں محض ڈیٹا پر مبنی نتائج دیتی ہیں۔ اسکے علاوہ انسان حالات کے مطابق نئی حکمت عملی بنا سکتا ہے، جبکہ مشین کو پہلے سے دیے گئے ڈیٹا پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
ایک اور اہم بات دماغ جذبات اور وجدان کے ساتھ سوچتا ہے، جو کہ مصنوعی ذہانت میں فی الحال موجود نہیں ہے۔ اگربات صرف رفتار کی، کی جائے تو انسانی دماغ مشینوں کے مقابلے میں سست ہے، لیکن معیاری فیصلہ سازی، جذباتی ذہانت اور تخلیقی سوچ کے لحاظ سے اب بھی مشینوں سے بہتر ہے۔
ایلون مسک کی کمپنی نے انسانی دماغ میں پہلی وائرلیس ’برین چِپ‘ لگادی
کیونکہ انسانی دماغ حیرت انگیز طور پر پیچیدہ اور مؤثر طریقے سے کام کرتا ہے اورگرچہ ہماری سوچنے کی رفتار کمپیوٹرز کے مقابلے میں سست معلوم ہوتی ہے، لیکن درحقیقت دماغ کا فطری فِلٹرنگ سسٹم ہمیں غیر ضروری معلومات سے بچاتا ہے اور صرف وہی چیزیں پروسیس کرنے دیتا ہے جو ہمارے لیے ضروری ہیں۔ یہی صلاحیت ہمیں عام مشینوں سے ممتاز کرتی ہے اور ہمیں ایک تخلیقی، جذباتی اور سیکھنے والا جاندار بناتی ہے۔