پاکستانی معاشرہ مرد کو ہمیشہ سے ایک مضبوط، نڈر، اور کفیل کے طور پر دیکھتا آیا ہے۔ ایک مرد کے لیے زندگی کی دوڑ میں کامیابی محض ایک خواہش نہیں، بلکہ ایک سماجی فرض سمجھا جاتا ہے۔ آج کا مرد شدید معاشی اور معاشرتی دباؤ کا شکار ہے
یہی وجہ ہے کہ مردوں کو جذباتی، سماجی، اور معاشی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں ان کی ذہنی صحت شدید متاثر ہوتی ہے۔ تاہم، یہ مسئلہ اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے کیونکہ مردوں کے جذبات کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
آج ٹی وی کے مارننگ شو ”آج پاکستان“ میں ’سماجی دباؤ اور خواہشات، مردوں میں ڈپریشن کی بڑی وجوہات‘ پر بات کی گئی۔ جس میں پروگرام کی میزبان سدرہ اقبال نے پینلسٹ سے بھر پور سوالات کئے اور مختلف شعبوں کے ماہرین سے ان کی آراء جاننے کے لئے تفصیلی گفتگو کی۔
خواتین کے مقابلے میں مردوں کو زیادہ دل کے دورے کیوں پڑتے ہیں؟
پاکستانی مردوں کو بچپن ہی سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ ’مرد روتے نہیں‘ اور ’مضبوط رہنا ان کی ذمہ داری ہے۔‘ اس سوچ نے مردوں کو مزید اندرونی طور پر اضطراب، پریشانی، اور تناؤ میں مبتلا کر دیا ہے۔ امبرین عسکری (ماہر تعلیم) اورعافیہ ابراہیم (ماہر نفسیات) نے بھی انہی خیالات کا اظہار کیا-
مارننگ شو ’آج پاکستان‘ میں میزبان سدرہ اقبال نے اس حوالے سے کہا، ’ہم خواتین کو ایک نرم گوشہ دیتے ہیں، لیکن مردوں سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہر حال میں مضبوط رہیں۔‘
یہ رویہ نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ مردوں کی ذہنی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ مرد اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے کتراتے ہیں، کیونکہ انہیں کمزور سمجھا جانے کا خوف ہوتا ہے۔ نتیجتاً، وہ اپنے اندر ہی اندر ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں، جو بعد میں غصے، چڑچڑاہٹ، اور حتیٰ کہ خودکشی جیسے سنگین نتائج کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ معاشی بحران نے مردوں کے لیے مشکلات میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ سدرہ اقبال نے کہا ’ہم نے گزشتہ برسوں میں بے روزگاری کی بلند ترین شرح دیکھی ہے، کئی صنعتیں بند ہو چکی ہیں، اور نوکری کی غیر یقینی صورتحال مردوں کے ذہنوں پر بھاری دباؤ ڈال رہی ہے۔‘
یہ خوف کہ نوکری ختم ہو جائے گی، کاروبار بند ہو جائے گا، یا گھر کے اخراجات پورے نہیں ہو سکیں گے، مردوں کو مسلسل ذہنی دباؤ میں رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں ماہر تعلیم امبرین عسکری نے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ یہ رویہ تبدیل ہونا چاہیے مرد اپنا مسئلہ گھر میں بتانے سے گریز کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عمران (چیف ڈیجیٹل آفیسر) نے کہا کہ گیلپ پاکستان کے حالیہ سروے کے مطابق، ملک میں 17 فیصد افراد کسی نہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہیں، لیکن مردوں میں یہ مسئلہ زیادہ گہرا ہے کیونکہ وہ مدد لینے سے کتراتے ہیں۔
خاندانی توقعات اور کفیل ہونے کا دباؤ بہت بڑھتا جارہا ہے اس سلسلے میں ڈاکٹرعمران نے ایک واقعہ بھی شئیر کیا اور کہا کہ لائف پارٹنر یا بیوی کو بہت زیادہ مددگار اور شوہر کو سمجھنے والا ہونا چاہیے -
پاکستانی معاشرے میں ایک مرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے بیوی بچوں بلکہ والدین، بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کی بھی مالی کفالت کرے۔ اس دباؤ کے تحت وہ اپنی خواہشات اور جذبات کو دبانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جب وہ اپنے مسائل کسی سے شیئر نہیں کرتا تو اس کا ذہنی دباؤ مزید بڑھ جاتا ہے، جس کا اثر اس کے رویے اور صحت پر پڑتا ہے۔
ماہرین نفسیات اور ماہرین تعلیم اس مسئلے کے حل کے لیے رویوں اور خاندانی سمجھ بوجھ پر زور دیا- اور کہا کہ مائنڈ سیٹ کی تبدیلی بہت ضروری ہے- مرد بھی جذبات رکھتے ہیں، اور انہیں اپنے احساسات کے اظہار کا پورا حق ہونا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ صرف خواتین کو جذباتی سہارا دیا جائے اور مرد ہر حال میں مضبوط رہیں۔
مردوں کے لیے ایک محبت بھرا اور سکون بخش گھریلو ماحول ضروری ہے، جہاں وہ اپنے مسائل پر اپنے جیون ساتھی سے بات کرسکیں اور انہیں جذباتی طور پر سپورٹ کیا جائے۔ یاد رکھیں مردوں کے لئے سماجی دباؤ ایک خاموش قاتل سے کم نہیں۔
مرد مظلوم ہوتے ہیں یا خواتین، جذبات سے کھیلنے کا ذمہ دار کون ؟
پاکستان میں مردوں کی ذہنی صحت ایک سنجیدہ مسئلہ بنتی جا رہی ہے، جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم واقعی ایک متوازن اور صحت مند معاشرہ چاہتے ہیں، تو ہمیں مردوں کے جذباتی، سماجی، اور نفسیاتی مسائل اور ذہنی دباؤ کو سمجھنا ہوگا اور ان کے ذہنی دباؤ میں ان کا ساتھ دینا ہوگا تاکہ گھر اور روزگار کٓے معاملات سے بہ حسن و خوبی نمٹا جاسکے-
مردوں میں بھی ذہنی صحت کے حوالے سے یہ آگاہی پیدا کرنی ہوگی تاکہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔