انسانی موت کے بارے میں کئی سوالات صدیوں سے انسانیت کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مرنے سے پہلے انسانی دماغ میں کیا ہوتا ہے؟ کیا واقعی موت کے لمحات میں زندگی کی جھلکیاں تیزی سے دماغ میں گردش کرتی ہیں؟ حالیہ سائنسی تحقیق نے اس راز پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے اور حیران کن انکشافات کیے ہیں۔

سائنسی جریدے ”فرنٹئیرز اِن ایجنگ نیورو سائنس“ (Frontiers in Aging Neuroscience) میں ”مرنے والے انسانی دماغ میں نیورونل ہم آہنگی اور ربط کا بڑھا ہوا تعامل“ ( Enhanced Interplay of Neuronal Coherence and Coupling in the Dying Human Brain) کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک تحقیق میں انسانی دماغ کی آخری سرگرمیوں کو ریکارڈ کرنے میں کامیابی حاصل کی گئی۔

یہ تحقیق ایک 87 سالہ مریض پر کی گئی، جس کا علاج مرگی کے لیے کیا جا رہا تھا۔ بدقسمتی سے، علاج کے دوران مریض کو دل کا دورہ پڑا اور وہ وفات پا گیا۔ خوش قسمتی سے، مریض کے دماغ پر نصب ایک آلہ موت کے وقت کے اردگرد 900 سیکنڈز (تقریباً 15 منٹ) کی دماغی سرگرمی کو ریکارڈ کرنے میں کامیاب رہا۔

موت سے پہلے دماغ میں کیا ہوتا ہے؟

محققین نے پایا کہ دل کی دھڑکن بند ہونے سے 30 سیکنڈ پہلے اور 30 سیکنڈ بعد دماغ میں گاما لہروں (Gamma Waves) میں اضافہ دیکھا گیا۔ گاما لہریں یادداشت اور سوچنے کے اعلیٰ افعال سے جڑی ہوتی ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مرنے سے پہلے دماغ انسانی زندگی کی یادوں کو فلیش بیک کی صورت میں دہرانا شروع کر دیتا ہے، جسے کئی لوگ زندگی آنکھوں کے سامنے چلتی محسوس ہونے کے تجربے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔

موت کے فوراً بعد کیا ہوتا ہے؟ نرس کے دل دہلا دینے والے انکشافات

محققین نے مختلف قسم کی دماغی لہروں میں اضافہ دیکھا، جن میں یادداشت اور شعوری تجربات سے منسلک گاما ویوز،

سکون اور خوابیدہ کیفیت سے جڑی الفا ویوز، تجزیاتی سوچ اور ذہنی سرگرمی کی نمائندہ بیٹا ویوز اور نیند اور گہرے دھیان سے وابستہ ڈیلٹا اور تھیٹا ویوز شامل ہیں۔

یہ لہریں عام طور پر اس وقت متحرک ہوتی ہیں جب کوئی شخص کسی پرانی یاد کو دہراتا ہے یا خواب دیکھ رہا ہوتا ہے۔

کیا موت کا وقت ذہن میں زندگی کا ایک آخری منظر ہوتا ہے؟

ڈاکٹر اجمل زیمر، جو اس تحقیق کے مرکزی سائنسدان ہیں، کہتے ہیں، ’دماغ مرنے سے پہلے زندگی کے اہم واقعات کی آخری جھلک پیش کرتا ہے، جیسے کہ موت کے قریب ہونے والے تجربات میں رپورٹ کیا گیا ہے۔‘

یہ تحقیق اعضاء کے عطیہ جیسے مسائل پر بھی نئے سوالات اٹھاتی ہے، کیونکہ اگر دماغ مرنے کے بعد بھی فعال رہتا ہے تو موت کا حتمی وقت کب ہوتا ہے؟

کیا یہ تحقیق بعد از موت زندگی کی حقیقت کو واضح کرتی ہے؟

اس تحقیق کے نتائج سائنسدانوں کے لیے انسانی ذہن اور بعد از موت تجربات پر نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔ اگرچہ سائنس ابھی تک موت کے بعد کے تجربات کے بارے میں کوئی قطعی جواب نہیں دے سکی، لیکن یہ دریافت اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ شاید انسان کا ذہن مرتے وقت کسی منفرد تجربے سے گزرتا ہے۔

موت سے پہلے جانور گول دائرے میں کیوں گھومتے ہیں؟ دلچسپ سائنسی انکشاف

یہ تحقیق ایک حیران کن حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ انسانی دماغ مرنے سے پہلے ایک آخری بار زندگی کے واقعات کو دہراتا ہے۔ کیا یہ صرف ایک نیورولوجیکل عمل ہے یا کوئی روحانی حقیقت؟ یہ سوال آج بھی کھلا ہے، مگر سائنس اس معمے کو حل کرنے کے قریب پہنچ چکی ہے کہ کیا موت کے وقت انسان اپنی پوری زندگی کو جھلک یا فلیشز کی صورت میں دیکھتا ہے؟

More

Comments
1000 characters