عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ خواتین، مردوں کے مقابلے میں زیادہ باتیں کرتی ہیں، لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ اس سوال کا جواب امریکا کی ایریزونا یونیورسٹی کی ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے، جس نے اس عام تاثر کو سائنسی بنیادوں پر جانچنے کی کوشش کی۔
2007 میں کی گئی اسی یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ خواتین کے زیادہ بولنے کا تصور محض ایک مفروضہ ہے، کیونکہ مرد اور خواتین اوسطاً روزانہ تقریباً 16 ہزار الفاظ بولتے ہیں۔ تاہم، حالیہ تحقیق میں اس نظریے کو مزید گہرائی سے پرکھا گیا، جس میں حیران کن نتائج سامنے آئے۔
تحقیق کے مطابق، اگرچہ عمومی طور پر خواتین زیادہ باتیں کرنے کا رجحان رکھتی ہیں، لیکن ایسا ان کی پوری زندگی میں نہیں ہوتا، بلکہ عمر کے ایک مخصوص حصے میں یہ فرق زیادہ واضح نظر آتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ دنیا بھر میں یہ خیال عام ہے کہ خواتین زیادہ بولتی ہیں، اور اسی نظریے کو جانچنے کے لیے انہوں نے 22 مختلف تحقیقی رپورٹس کا جائزہ لیا، جن میں مجموعی طور پر 6 لاکھ 30 ہزار مردوں اور خواتین کی گفتگو سے متعلق ڈیٹا شامل تھا۔ ان افراد کی عمریں 10 سے 94 سال کے درمیان تھیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 10 سے 17 سال، 18 سے 24 سال اور 65 سال یا اس کے بعد کی عمر میں خواتین اور مردوں کے بولنے کی اوسط تقریباً برابر ہوتی ہے۔ تاہم، 25 سے 64 سال کے درمیان خواتین، مردوں کے مقابلے میں روزانہ تقریباً 3 ہزار الفاظ زیادہ بولتی ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق، 25 سے 64 سال کی عمر میں خواتین روزانہ اوسطاً 21,845 الفاظ بولتی ہیں، جبکہ اسی عمر کے مرد روزانہ 18,570 الفاظ ادا کرتے ہیں۔
محقیقین کا کہنا ہے کہ وہ مکمل یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اس مخصوص عمر میں خواتین کے زیادہ بولنے کی اصل وجہ کیا ہے، مگر امکان ہے کہ یہ دورانیہ بچوں کی پرورش اور گھریلو ذمہ داریوں کے باعث خواتین کے زیادہ بات کرنے کا سبب بنتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ جدید دور میں مجموعی طور پر افراد کی گفتگو کا رجحان کم ہو رہا ہے، اور اس کی ممکنہ وجہ ڈیجیٹل کمیونیکیشن پر بڑھتا ہوا انحصار ہو سکتا ہے، جس میں لوگ روایتی بات چیت کے بجائے پیغامات اور تحریری ذرائع کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، مرد اور خواتین دونوں ہی کم بولنا شروع کر دیتے ہیں، جو کہ سماجی اور نفسیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔