اردو ادب اور شاعری محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ تہذیب، تاریخ، اور جذبات کی آئینہ دار ہے۔ یہ وہ سرمائے کی صورت ہے جو ہر دور میں فکر و خیال کو جِلا بخشتی ہے اور انسانی احساسات کو الفاظ کی صورت میں ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔ اردو ادب، تہذیب و ثقافت کی وہ کہانی ہے جو ہر نسل کو ماضی، حال اور مستقبل سے جوڑتی ہے، اور یہی اس کی سب سے بڑی طاقت اور پہچان ہے۔
اردو شاعری خوشبو کی مانند ہے، جو وقت کے ساتھ مدھم نہیں ہوتی بلکہ نسل در نسل مہکتی رہتی ہے۔ یہ احساسات کا وہ دریچہ ہے جہاں ہر درد، ہر خوشی اور ہر خواب زندہ جاوید الفاظ میں ڈھل کر ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتا ہے۔ جب تک محبت، درد اور امید باقی ہے، تب تک اردو شاعری بھی زندہ رہے گی۔
غالب کی شوخی، میر کی نرمی، اقبال کی فکری بلندی اور فیض کی انقلابی بغاوت وقت کی قید سے آزاد ہیں اور ہر دور میں روشنی بکھیرتی رہیں گی۔ اردو ادب وہ کہکشاں ہے جس کے ستارے کبھی ماند نہیں پڑتے، بلکہ ہر زمانے میں نئے اجالے بکھیرتے ہیں۔ شاعری وہ سچائی ہے جو الفاظ میں ڈھل کر دلوں میں جاگزیں ہو جاتی ہے اور صدیوں تک اپنی روشنی برقرار رکھتی ہے۔
لیکن یہ کیا ؟ کیا ہم اپنی نسلوں تک اپنی تہذیب، اپنا ادب ، اپنی اقدار اوراپنا ورثہ نہیں پہنچا سکے اورنہیں پہنچا پا رہے؟ کیا معروف اردو پلیٹ فارم ”ریختہ“ کیا شکست و ریخت کی جانب گامزن ہوچلا ہے؟
حال ہی میں اس معروف پلیٹ فارم کی جانب سے جس کے صرف فیس بک پر1.5 ملین سے زیادہ فالوورز ہیں، نے اردو کے معروف شعرا کو عجیب ہتک آمیز انداز میں کومک کرداروں میں پیش کیا ہے اور نہایت غیرذمہ داری کا ثبوت دیا ہے اور اردو ادب و شاعری کے لاکھوں قارئین کو اس عمل سے تکلیف پہنچی ہے اور انہیں نہایت مایوسی کا سامنا ہے، اور ”ریختہ“ کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
اردو شعرا جن کو کومک کرداروں میں پیش کیا گیا ہے ان میں نہایت بڑی ادبی شخصیات میر تقی میر، مرزا غالب، علامہ محمد اقبال، فیض احمد فیض، جون ایلیا، حبیب جالب، مجروح سلطان پوری، ناصر کاظمی اور جوش ملیح آبادی شامل ہیں۔
اس پوسٹ میں میر تقی میر کو بیٹ مین، مرزا غالب کو سپر مین، علامہ محمد اقبال کو آئرن مین، فیض احمد فیض کو کیپٹن امریکا، جون ایلیا کو ڈاکٹر اسٹرینج، پروین شاکر کو بلیک وِڈو اور اکبر الہ آبادی کو ڈیڈ پول بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ حبیب جالب کو ونٹر سولجر اور مجروح سلطان پوری کو ہاک آئی، ناصر کاظمی کو اسپائیڈرمین، جوش ملیح آبادی کو ہَلک دکھایا گیا۔ اورپوسٹ کے کیپشن میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ!
’جو شاعر باقی رہ گئے ہیں وہ اگلے پارٹ میں آئیں گے اگر آپ لوگ مانگیں گے تو‘
یہ پوسٹ نہ صرف اردو زبان اور ادب کے تمام حلقوں میں ناپسندیدگی کا شکارہے بلکہ دنیا بھر میں اردو ادب کی دنیا میں اس پر افسوس اور غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ادب کا احترام اور شعرا کی عظمت
اردو شاعری کی تاریخ میں ایسے بےشمار شعرا گزرے ہیں جنہوں نے اپنے الفاظ سے تہذیب و ثقافت کو جِلا بخشی۔ غالب، میر، اقبال، فیض، فراق اور دیگر کئی شاعروں کے کلام نے نسلوں کو شعور، جمالیات اور گہرے فکری نظریات عطا کیے ہیں۔ ایسے ادیب اور شاعر کسی بھی زبان اور تہذیب کا سرمایہ ہوتے ہیں اور ان کا احترام ہر صاحبِ علم و ادب پر لازم ہوتا ہے۔
شعرا کا کومک کرداروں میں پیش کیا جانا درحقیقت ان کے علمی مقام اور عظمت کی تنزلی کے مترادف ہے۔
یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے ان کی فکری گہرائی اور کلام کی سنجیدگی متاثر ہوتی ہے۔ وہ شخصیات جو اپنے دور میں بھی اور بعد از مرگ بھی لاکھوں دلوں کی دھڑکن رہیں، ان کی شخصیت کو مزاح کے لیے استعمال کرنا نہ صرف غیر سنجیدہ رویہ ہے بلکہ یہ ادب کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔
’ریختہ‘ کی ذمہ داری
ریختہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس نے اردو ادب کی ترویج میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس پر لاکھوں اردو شائقین بھروسہ کرتے ہیں کہ یہاں انہیں معیاری، مستند اور سنجیدہ علمی مواد فراہم کیا جائے گا۔ ایسے پلیٹ فارم سے اس طرح کی غیر محتاط پوسٹ کا شائع ہونا باعثِ حیرت بھی ہے اور باعثِ افسوس بھی۔
ادبی اور ثقافتی پلیٹ فارمز پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ادب کی حرمت کا خیال رکھیں، خاص طور پر جب وہ عالمی سطح پر پہچانے جاتے ہوں۔ اردو شاعری اور ادب کی خدمت کے نام پر اس طرح کے تجربات کرنا درحقیقت ادب کی خدمت نہیں بلکہ نقصان ہے۔
اردو ادب سے محبت کرنے والوں کا ردِعمل
ریختہ کی اس پوسٹ پر اردو سے محبت رکھنے والے افراد، اساتذہ، شعرا، ادیبوں، اور عام قارئین نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ بہت سے معروف ادیبوں اور شاعروں نے اسے ادب کی توہین قرار دیا ہے اور اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔
سوشل میڈیا پر کئی سنجیدہ مبصرین، اردو ادب کے سنجیدہ قارئین اور محققین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی غیر سنجیدہ اور بے احتیاطی پر مبنی پیشکشیں ہمارے ورثے۔ ہمارے ادب کے وقار کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نئی نسل کو ان کی اصل علمی حیثیت سے دور لے جا سکتی ہیں۔
ادبی و ثقافتی اداروں پلیٹ فارمز اور اداروں کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اردو ادب اور شعرا کا احترام ہر حال میں برقرار رکھنا چاہیے، اور ایسے تجربات سے گریز کرنا چاہیے جو ادبی ورثے کو غیر سنجیدہ بنانے کا سبب بنیں۔
ریختہ جیسے بڑے اداروں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ ایسا مواد پیش نہ کریں جو اردو ادب کی سنجیدگی اور شعرا کی عظمت پر سوالیہ نشان بنے۔ ساتھ ہی، اس معاملے پر معذرت یا وضاحت پیش کرنا بھی ان کے لیے ضروری ہو گیا ہے تاکہ اردو کے چاہنے والوں میں پھیلی مایوسی اور غم و غصے کو کم کیا جا سکے۔