ناسا کی تجربہ کار خلائی مسافر سنیٹا ولیمز نے انکشاف کیا ہے کہ وہ سات ماہ سے خلا میں موجود ہونے کے بعد ’چلنے کا احساس یاد کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘
سی بی ایس کے وابستہ چینل WBZ-TV کے مطابق، ولیمز نے 27 جنوری کو انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن (ISS) سے نیڈھم ہائی اسکول کے طلبہ سے گفتگو کی اور خلا میں زندگی کے بارے میں اپنے تجربات شیئر کیے۔
انہوں نے طلبہ کو بتایا کہ میں 7 ماہ سے نہ چلی ہوں، نہ بیٹھی ہوں اورنہ لیٹی ہوں۔ اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ آپ صرف اپنی آنکھیں بند کریں اور جہاں ہیں وہیں معلق رہ سکتے ہیں-
چین میں نئے قمری سال کی تقریبات کا آغاز
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ماہ کا مشن تھا جو سات ماہ تک بڑھ گیا۔
ولیمز نے بتایا کہ ’ابتدائی طور پر ہمارا خیال تھا کہ یہ مشن تقریباً ایک ماہ کا ہوگا، لیکن اس میں غیر متوقع توسیع ہوگئی۔‘
وہ اور ان کے ساتھی بُچ ولمور ناسا کے بوئنگ اسٹارلائنر کی تکنیکی خرابی کے باعث گزشتہ سات ماہ سے خلا میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس مشن کی مدت محض 8 سے 10 دن تھی، لیکن اسٹارلائنر میں پیش آنے والے مسائل نے ان کی واپسی میں مسلسل تاخیر پیدا کی۔
زمین پر واپسی کب ممکن ہوگی؟
دسمبر 2024 میں ناسا نے اعلان کیا تھا کہ ان کے لیے واپس بھیجی جانے والی اسپیس کرافٹ ’مارچ 2025 کے آخر سے پہلے‘ تیار نہیں ہوگی۔ تاہم، ناسا کی جانب سے اسپیس ایکس کریو-9 ڈریگن کو ان کے لیے بھیجا گیا تھا، اور توقع تھی کہ وہ فروری میں واپس آ سکیں گے۔
مگر صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہوگئی جب ان کے متبادل خلا بازوں کو لے کر جانے والی اسپیس ایکس کریو10 کی پرواز کو مارچ یا اپریل 2025 تک مؤخر کر دیا گیا۔
گوگل میپس پر خلیج میکسیکو کو ’’خلیج امریکا‘‘ کرنے کا اعلان
ولیمز اور ولمور کی طویل ترین مشن میں شمولیت
سنیٹا ولیمز اور بُچ ولمور کے لیے یہ ایک غیر متوقع صورت حال ہے، کیونکہ ان کا مختصر مشن اب ناسا کے ایک طویل ترین خلائی مشن میں تبدیل ہو چکا ہے۔ وہ نہ صرف خلا میں مسلسل موجودگی کے اثرات محسوس کر رہے ہیں بلکہ زمین پر واپسی کے بعد ’ کششِ ثقل کے دوبارہ عادی ہونے’ کا بھی چیلنج درپیش ہوگا۔
خلائی تحقیق میں یہ ایک منفرد موقع ہے جو انسانی جسم پر طویل مدتی خلا میں رہنے کے اثرات کو مزید سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے، لیکن سنیٹا ولیمز اور ان کے ساتھی خلا باز جلد از جلد زمین پر واپسی کے منتظر ہیں۔