امریکہ کے گہرے اور پراسرار پہاڑوں میں ایک ایسا راز چھپے ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے جس سے لوگ صدیوں سے انجان ہیں، دعویٰ کیا گیا ہے کہ آج بھی ان پہاڑوں کے سائے میں ’آدم خور لِلی ُپٹ بونے‘ چھپے بیٹھے ہیں جن کا خوف کسی بھی دلیر کو لرزا دے۔ یہ وہ مخلوق ہیں جو نہ صرف انسانوں کو شکار کرتی ہیں، بلکہ اپنی اجنبی شکلوں اور خونخوار انداز کے باعث مقامی کہانیوں کا حصہ بن چکی ہیں۔
یہ عجیب و غریب کہانی 19ویں صدی کے ابتدائی برسوں کی ہے جب مہم جو اور پہاڑوں میں بسنے والے لوگ ان ’بونوں کے خونخوار قبیلوں‘ کے بارے میں خوفناک قصے سناتے تھے۔
مُردوں کے ساتھ زندگی گزارنے والا ایک حیرت انگیز قبیلہ
کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ چارفٹ یا اس سے بھی کم قد والے تھے، اور جب انہیں غصہ آتا یا کسی نے ان کی حدود کو کراس کیا تو وہ جان لے کر چھوڑتے تھے۔ ان کی تشویش ناک عادتوں میں سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ وہ انسانوں کو شکار کرتے اور کبھی کبھار ان کے گوشت کا استعمال کرتے تھے۔
اگرچہ یہ کہانیاں طویل عرصے تک صرف افسانہ سمجھی گئیں لیکن حالیہ برسوں میں کچھ عجیب و غریب واقعات نے ان کی حقیقت سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ کئی ماہرین نے ان پراسرار ہستیوں کی موجودگی کے شواہد جمع کیے ہیں۔
ایپلیچین اور سیرا نیواڈا کے پہاڑوں میں غائب ہونے والے افراد کے بارے میں ایک سنسنی خیز حقیقت سامنے آئی ہے۔ 2022 میں، ایک ماہر کوہ پیماؤں کے گروپ کا اچانک غائب ہونا، ان کے پیچھے چھوڑے گئے عجیب و غریب آثار، اور ایک زندہ بچ جانے والے شخص کی خوفناک گواہی نے سب کو حیرانی میں مبتلا کردیا۔
اس شخص کا کہنا تھا کہ ’ہمیں وہ چھوٹے، سیاہ اجسام دکھائی دیے جو ہمارے ارد گرد آ گئے تھے، اور ان میں سے ایک نے ہمارے ساتھی کو کھا لیا تھا۔‘
کیا یہ چھوٹے آدم خور ’لِلی پُٹ‘ بونے حقیقت میں موجود ہیں؟ اگر ہیں تو، کیا یہ وہی قدیم قبیلے ہیں جو صدیوں سے پہاڑوں میں گم ہو گئے تھے؟ یہ سوالات اب تک انسانوں کے لیے ایک سنسنی خیز معمہ بن چکے ہیں۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ جنگجو شاید کسی گمشدہ نسل کی باقیات ہیں جو اس وقت سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے ہیں، اور ممکنہ طور پر آج بھی اپنی اجنبی روایات اور خونخوار طرز زندگی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ممکن ہے کہ یہ ’آدم خور ِللی پُٹین بونے‘ کسی قدیم نسل سے تعلق رکھتے ہوں جو تمام تر ترقی سے الگ تھلگ رہ کر اپنی بقاء کے لیے جنگ کرتے ہوں۔
ڈاکٹر ایولن ہیریس، مشہور ماہر بشریات کہتی ہیں۔ ’ہم اس بات کو رد نہیں کر سکتے کہ یہ لوگ ابھی بھی ہماری دنیا میں کہیں موجود ہوں، جو ہمارے خیالات سے بھی بالا تر ہو۔‘
عجیب بات یہ ہے کہ اس ہفتے ایک مقامی ایڈاہو ریڈیو اسٹیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ عجیب قبیلہ آج بھی ایڈاہو کے پہاڑوں پر گھوم رہا ہے۔
انسانوں کے بعد زمین پر اگلی حکومت کس جانور کی ہوگی؟ سائنسدانوں کا انکشاف
کیا آپ ان پہاڑوں میں قدم رکھنے کی جرات رکھتے ہیں؟
یہ سوالات اس وقت اور بھی دلچسپ ہو جاتے ہیں جب ہم یہ سوچیں کہ اگر یہ ’آدم خور بونے‘ حقیقت میں موجود ہیں تو ان کی زندگی اور ان کے عقائد ہمیں کیا سکھا سکتے ہیں؟ اگر یہ خونخوار بونے ابھی بھی پہاڑوں میں چھپ کر رہ رہے ہیں، تو وہ انسانی تہذیب سے کتنے دور ہیں؟ اور اگر یہ حقیقت میں باہر نکل آئیں، تو کیا انسانیت ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے؟
دنیا ہمیشہ ایسی حقیقتوں سے بھری ہوتی ہے جو ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ شاید ان ’خونخوار بونوں‘ کا راز کبھی مکمل طور پر سامنے نہ آئے، مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ پہاڑ، ان خونخوارجنگجوؤں کی موجودگی کے گواہ ہیں، اور شاید وہ ایک دن ہماری نظر سے چھپے ہوئے ان پراسرار سرنگوں اور غاروں میں دوبارہ نکل آئیں۔