دیگر ایشیائی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی چائلڈ لیبر ایک سنگین مسئلہ ہے، یہاں چائے کے ہوٹلوں، آٹو ورکشاپس، فیکٹریز، سڑکوں، اور گھروں میں بچے مزدوری کرتے نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں بھٹوں پر کام کرنے والے بچوں کی زندگی پر مبنی اینی میٹڈ فلم ”انڈر دی بلیز“ رواں برس ریلیز کی جائے گی۔ یہ فلم چائلڈ لیبر جیسے اہم مسئلے پر شعور اجاگر کرنے کی ایک کوشش ہے۔
انڈر دی بلیز کی کہانی پاکستان میں بھٹہ مزدوری کے دوران بچوں کی زندگیوں پر مبنی ہے۔ بھٹوں پر کام کرنے والے بچے صبح سے شام تک مشقت کرتے ہیں، جس کے باعث وہ اپنی دیگر خواہشات یا سرگرمیوں کو پورا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
فلم کے ہدایتکار، اویس شوکت، نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے فائن آرٹس کے طالب علم ہیں۔ اویس نے 15 سال کی عمر میں ڈیجیٹل آرٹ کا سفر شروع کیا اور وہ اپنی مہارت کے لیے مشہور ہیں۔ یہ فلم ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔
فلم کی کہانی حقیقی واقعات سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے، اویس اور ان کی ٹیم نے کئی بھٹوں کا دورہ کیا اور مختلف خاندانوں سے گفتگو کے بعد اس کہانی کو شکل دی۔
اویس شوکت نے بتایا کہ ہم جب بھی کسی بھٹے پر جاتے تھے، وہاں بچے کام کرتے تھےلیکن وہ ہمیں دیکھ کر ہمیشہ غائب ہو جاتے تھے ہر کوئی یہ سوچ کر خوفزدہ تھا کہ ہم کسی بھی سرکاری محکمےسے ہیں۔
اویس شوکت کا کہنا ہے کہ انہوں نے اینیمیشن کو اس مسئلے کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنایا، کیونکہ یہ ایک مؤثر طریقہ ہے جس سے کہانی کو بہتر انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
انڈر دی بلیز اس وقت پری پروڈکشن کے مراحل میں ہے، جہاں اسٹوری بورڈ، کرداروں کی ڈیزائننگ، اور اسکرپٹ مکمل ہو چکی ہیں۔ فلم کا مقصد لوگوں میں چائلڈ لیبر کے مسئلے اور اس کے نتائج کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ فلم کو آئندہ سال بین الاقوامی فلمی میلوں میں پیش کرنے کا منصوبہ ہے۔
چائلڈ لیبر کے حوالے سے سندھ میں قانون موجود ہے، لیکن حالیہ رپورٹ کے مطابق کراچی میں چائلڈ لیبر کی شرح سب سے کم 2.38 فیصد ہے، جبکہ قمبر شہدادکوٹ میں یہ شرح سب سے زیادہ 30.8 فیصد ہے۔ دیگر اضلاع میں گھوٹکی: 17.6 فیصد، خیرپور: 9 فیصد، شکارپور: 20.2 فیصد، تھرپارکر: 29 فیصد، بدین: 7.2 فیصد، ٹھٹھہ: 23 فیصد ہے یہ اعداد و شمار اس سنگین مسئلے کی جانب توجہ دلانے کے لیے کافی ہیں۔
انڈر دی بلیز“ فلم ایک منفرد قدم ہے جو بچوں کی مشقت کے مسئلے کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی تبدیلی کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔