وویک اوبرائے کا شمار بالی وڈ کے انتہائی باصلاحیت اداکاروں میں ہوتا ہے۔ اُن کے کریڈٹ پر کمپنی اور شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈ والا جیسی سپرہٹ فلمیں ہیں۔ ان دونوں فلموں میں وویک کا کردار لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہوکر رہ گیا۔ کمپنی وہ چندو اور شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈ والا میں مایا بنے تھے اور یہ دونوں ہی کردار اب آئکونک ہوچکے ہیں۔
پھر ایسا کیا ہوا کہ وویک بالی وڈ میں اپنے آپ کو ثابت قدم نہ رکھ پائے؟ لوگ کہتے ہیں کہ اُن کی سلمان خان سے نہیں بنی اور یوں اُن کا کریئر تباہ ہوگیا۔
وویک کہتے ہیں کہ مجھے اداکاری کا بہت شوق تھا مگر میں نے حقیقت پسندی سے کام لیا اور بزنس کو ترجیح دی۔ بالی وڈ کی لابیز میرے مستقبل کا تعین نہیں کرسکتیں۔
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق وویک اوبرائے نے کہا کہ میرے لیے یہ بات بہت حد تک سوہانِ روح تھی کہ اپنی کسی فلم کی بھرپور کامیابی کے بعد بھی سال ڈیڑھ سال تک گھر بیٹھا رہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ کمپنی، روڈ، ساتھیا اور یُوا جیسی شاندار اور کامیاب فلموں کے ذریعے اچانک ابھر کر سامنے آنے والے وویک اوبرائے کو بالی وُڈ کی اندرونی سیاست نے کھالیا۔ انہوں نے متبادل کے طور پر بزنس کو اپنالیا۔ وویک اپنے بزنس کے حوالے سے بہت کچھ کہتے آئے ہیں تاہم اب انہوں نے کھل کر بتایا ہے کہ کامیاب فلمیں دینے کے بعد بھی فلمیں نہ ملنے سے اُنہیں شدید ذہنی کوفت ہوا کرتی تھی۔
”اسکرین“ سے ایک انٹرویو میں وویک نے کہا کہ مستی کی کامیابی کے بعد شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈا والا آئی۔ اس فلم کا گانا گنپت ہٹ ہوا مگر اس کے باوجود مجھے فلمیں نہ مل سکیں۔ بالی وُڈ کے لابی کلچر نے میرے کریئر پر شدید منفی اثرات مرتب کیے۔
وویک کا کہنا ہے کہ میں نے 22 سال میں 67 منصوبے مکمل کیے ہیں۔ فلم انڈسٹری بہت ہی غیر محفوظ جگہ ہے۔ آپ اچھا کام کر رہے ہوں، ایوارڈز جیت رہے ہوں اور آپ کی فلمیں بھی اچھی چل رہی ہوں مگر اِس کے باوجود ہوسکتا ہے کہ کسی بھی وجہ سے آپ کو کام نہ ملے یا کام نہ دیا جائے۔
وویک کہتے ہیں شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈ والا میں میرا کردار بہت جاندار تھا۔ لوگوں کی زبان پر مایا، مایا تھا مگر اس فلم کی بھرپور کامیابی کے باوجود میں تقریباً سوا سال تک کسی ایک بھی آفر کے بغیر گھر بیٹھا رہا۔ یہ مرحلہ انتہائی پریشان کن تھا۔ میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ کبھی ایسا بھی ہوگا۔
2009 کے آس پاس وویک آبرائے نے فیصلہ کیا کہ فلمی دنیا پر منحصر رہنے کے بجائے کاروبار کی دنیا میں قدم جمائے جائیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کی تقدیر یا مستقبل کا فیصلہ بالی وڈ کی لابیز کریں۔ وہ اپنے بل پر جینا چاہتے تھے۔
وویک کو اداکاری کا شوق تھا۔ انہوں نے بزنس کو پلان بی کے طور پر رکھا تھا۔ وقت پر یہ پلان بی کام آیا اور وویک نے کاروبار کی دنیا میں بھرپور اننگز شروع کی۔ کاروبار کی دنیا اُن کے لیے نئی نہیں تھی۔ ان کے خاندان میں یہ سب کچھ بہت پہلے سے چل رہا تھا۔ وویک کے والد سریش اوبرائے اداکاری کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی کرتے تھے اور اس معاملے میں وہ بہت حد تک ڈسپلن کے قائل تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ کسی کی مہربانی کے بل پر جینے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان اپنے بل کر کچھ کرے، پھر چاہے کامیابی برائے نام ہی ہو۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ وویک اوبرائے نے پیشہ ورانہ سطح پر سبوتاژ کیے جانے کا ذکر کیا ہو۔ انہوں نے بھرپور کامیابی کے باوجود کام نہ ملنے کی اذیت کا پہلے بھی ذکر کیا ہے۔
کسی جواز کے بغیر اُن کے خلاف محاذ کھڑا کیا گیا۔ انہوں نے چند فلمیں سائن کرلی تھیں مگر پھر وہ فلمیں اُن سے چھین لی گئیں۔ انڈر ورلڈ کی طرف سے بھی دھمکیاں ملیں۔ پولیس نے مجھے مسلح گارڈز دیے۔
وویک اوبرائے کی شادی 2010 میں جنوبی ریاست کرناٹک کے سابق وزیر آں جہانی جیو راج آلوا اور نامور رقاصہ نندِنی کی بیٹی پرینکا سے ہوئی تھی۔ وویک کی ایک بیٹی (امیہ نروانا) اور ایک بیٹا (وِوان ویر) ہے۔ وویک نے رواں سال روہِت شیٹی کی انڈین پولیس فورس کے ذریعے ویب ڈیبیو کیا ہے۔