آپ نے کلاسک ہالی ووڈ بلاک بسٹر فلم ”دی میٹرکس“ تو دیکھی ہوگی، جس میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) انسانوں کو غلام بنا لیتی ہے، تاکہ ہمارے جسم کی حرارت سے اس کے کمپیوٹرز کو طاقت فراہم کی جاسکے۔ اگرچہ یہ سننے میں سائنس فکشن ہی لگتا ہے لیکن طبیعیات کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ ہم شاید میٹرکس طرز کے سمیولیشن میں ہی رہ رہے ہیں۔
برطانیہ کی پورٹسماؤتھ یونیورسٹی میں طبیعیات کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر میلون ووپسن کا خیال ہے کہ روز مرہ سراغوں کی ایک سیریز سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دنیا ایسی نہیں ہے جیسی نظر آتی ہے۔
انہوں نے اس حوالے سے ایک فرضی اور فلسفیانہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر ہم مجازی بناوٹی ماحول (سمیولیشن) میں رہ رہے ہیں، تو اس کا مقصد کیا ہے؟
انہوں نے میل آن لائن سے بات کرتے ہوئے تین نظریات کا خاکہ پیش کیا، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم سب کی پیدائش کے وقت ایک جدید اے آئی نے دنیا میں ہمارے کردار بننے کا انتخاب کیا تھا۔
پروفیسر ووپسن نے میل آن لائن کو بتایا کہ ’یہ تمام منظرنامے ایک ماسٹر اے آئی کے کنٹرول میں کام کرتے ہیں، جو یقیناً انسانی تہذیب کے مستقبل کے حوالے سے تخلیق کیے گئے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ ممکن ہے اب کوئی بیدار نہ ہو اور ہم مصنوعی حقیقت میں پھنس گئے ہوں، جسے اے آئی کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔‘
یہ نام نہاد ’سمولیشن تھیوری‘ ایلون مسک سمیت دیگر شخصیات میں بھی مقبول ہے ، جنہوں نے کہا کہ ہم ایک ’بنیادی حقیقت‘ میں رہ رہے ہیں جو حقیقی کائنات کے برعکس ’اربوں میں ایک‘ ہے۔
پروفیسر ووپسن، جن کی تحقیق اطلاقی اور بنیادی طبیعیات کے تجرباتی اور نظریاتی مطالعات پر مرکوز ہے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ تینوں منظرنامے قیاس آرائیاں ہیں اور سائنسی تحقیق کی حمایت یافتہ چیز نہیں۔
لیکن پورٹسماؤتھ یونیورسٹی میں ان کی کچھ تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پوری کائنات ایک مصنوعی ساخت یا ایک بڑا کمپیوٹر ہے۔
پہلا نظریہ یہ ہے کہ ہم نے پیدائش کے وقت سمیولیشن میں خالصتاً تفریح کی ایک شکل کے طور پر داخل ہوننے کا انتخاب کیا تاکہ اپنے ذہنوں کو محظوظ اور مصروف رکھا جا سکے۔ حقیقی دنیا جسے ہم نے پیچھے چھوڑا ہے وہ کچھ خاص دلچسپ نہیں ہے، اس لیے انسانوں نے ایک بہت زیادہ دلچسپ، من گھڑت، زندگی کے قریب ایک کمپیوٹر سمیولیشن تخلیق کیا، ایک الٹی میٹ وی آر گیم۔
پروفیسر ووپسن نے میل آن لائن کو بتایا کہ ’ہم نے نقل کو تفریح کی جگہ کے طور پر بنایا ہے جہاں ہم (پیدائش کے وقت) داخل ہونے کا انتخاب کر سکتے ہیں اور اس کے تمام اجزاء کے ساتھ پوری نئی زندگی کا تجربہ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک ہمارے پاس پیدائش کے وقت اس صلاحیت کے کے ہونے کا سوال ہے کہ ہم سمیولیشن میں داخل ہونے کا فیصلہ کر سکیں، یہ ممکن ہے کہ ہمارے شعور نے پیدائش سے پہلے ہی یہ انتخاب کر لیا ہو۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ سمیولیشن انسانوں کو مجموعی طور پر ’کچھ سیکھنے‘ میں مدد دیتا ہے جو حقیقی دنیا کے مسئلے کا حل فراہم کرسکے۔
اس نام نہاد گنی پگ تھیوری کے مطابق، ہو سکتا ہے کہ ہم سب غیر ارادی طور پر بنی نوع انسان کے طویل مدتی فائدے کے لیے سمیولیش کے اندر پھنسے ہوں۔
پروفیسر ووپسن نے میل آن لائن کو بتایا کہ ’تصور کریں ہمارے معاشرے کے پاس حل کرنے کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ ہے - ماحولیاتی، اقتصادی، توانائی کے بحران، جنگیں‘۔
’اگر ہمارے پاس قابلیت ہے تو اسے حل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ ایک سمیولیشن (یا ایک سے زیادہ متوازی سمولیشنز) چلائیں اور دیکھیں کہ ہم میں سے نقلی ورژن کیا حل پیش کرتا ہے‘۔
’اگر کسی بھی نقالی سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے، تو ہم اسے بنیادی حقیقت میں ایک قابل عمل حل کے طور پر اپنا سکتے ہیں۔‘
آخر میں انہوں نے ’قریب لافانی‘ یا ’نارنیا‘ نظریہ بتایا جس کے مطابق حقیقی دنیا میں وقت نقلی وقت کے مقابلے میں بہت تیزی سے حرکت کرتا ہے۔
مثال کے طور پر، حقیقی دنیا میں ایک منٹ، سمولیشن میں 100 سال تک چل سکتا ہے، جب کہ حقیقی دنیا میں ایک اوسط 80 سالہ زندگی 4.2 بلین سال کے مترادف ہو سکتی ہے۔
سمیولیشن میں رہنے کا انتخاب کرنے سے ہم ایک سے زیادہ زندگیوں کا تجربہ کر سکتے ہیں اور بنیادی طور پر لافانیی حاصل کر سکتے ہیں۔
ووپسن کے مطابق جب ہم خواب دیکھتے ہیں تو وقت اسی طرح کام کرتا ہے۔
’خواب میں، وہ واقعات جن کا ہم تجربہ کرتے ہیں وہ آخری منٹوں، گھنٹوں یا دنوں تک ظاہر ہو سکتے ہیں، لیکن حقیقی شعوری حالت میں خواب حقیقت میں سیکنڈوں کے کچھ حصے تک جاری رہتا ہے۔‘
پروفیسر ووپسن پہلے ہی ایسے اشارے دے چکے ہیں جو تجویز کرتے ہیں کہ ہم ایک مصنوعی حقیقت میں رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روشنی اور آواز کتنی تیز رفتار سے سفر کر سکتے ہیں اس کی حدود ہیں، مثال کے طور پر، ان پر کمپیوٹر پروسیسر کی رفتار سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ فزکس کے قوانین جو کائنات پر حکمرانی کرتے ہیں وہ بھی کمپیوٹر کوڈ کے مشابہ ہیں۔