پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خاتون رہنما صنم جاوید کافی عرصے سرخیوں میں رہی ہیں اور انہوں نے کافی لمبی جیل بھی کاٹی ہے، انہیں نو مئی کو تخریب کاری کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، صنم جاوید ضمانتیں بھی ہوتی رہیں لیکن وہ بار بار گرفتار ہوجاتیں اور جیل سے نکل نہ پاتیں، بالآخر اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر انہیں رہائی کا پروانہ مل گیا اور اب وہ پی ٹی آئی کی سیاست میں فعال کردار کررہی ہیں۔ لیکن رہائی کے بعد بھی ان کی مقبولیت کم نہ ہوئی اور انہوں نے جیل میں گزارے وقت کے بارے میں دلچسپ معلومات فراہم کیں۔

صنم جاوید نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے کس طرح اپنے اسیری کے ایام گزارے اور کوٹ لکھپت جیل جہاں وہ قید تھیں، وہاں خواتین کی روٹین کیا تھی۔

صنم جاوید نے بتایا کہ جیل میں قید خواتین آپس میں جب لڑتی تھیں تو جیل عملہ اس لڑائی کو ختم کروانے کے لیے دونوں فریقوں کو تھوڑا بہت مار دیا کرتا تھا، جس پر وہ خواتین عدالت میں پیشی پر جج سے شکایت کرتی تھیں کہ جیل اہلکار ان پر تشدد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جیل کا یہ مقصد نہیں کہ وہاں قیدیوں پر تشدد کیا جائے بلکہ جیل کسی مجرم کی اصلاح کے لیے ہوتی ہے۔ اسی لئے کوٹ لکھپت جیل میں ایک سلائی سینٹر اور ایک بیوٹی پارلر بھی ہے جہاں خواتین قیدیوں کو تربیت دی جاتی ہے۔

میزبان نے سوال کیا کہ صنم جاوید جب بھی جیل سے حاضری پر عدالت میں آتی تھیں تو ان کی آئی بروز (بھنوئیں) بنی ہوتی تھیں تو کیا جیل میں بیوٹی پارلر بھی تھا؟

جس پر صنم جاوید کا کہنا تھا کہ اس کام کے لیے پارلر کی ضرورت نہیں، یہ کام لڑکیاں خود بھی کرلیتی ہیں۔

صنم جاوید نے کہا کہ رات میں جیل کی بیرکس بیوٹی پارلر کا منظر پیش کیا کرتی تھیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ وزیر داخلہ محسن نقوی ایک دفعہ جیل کے دورے پر آئے تو سیدھا جیل کے بیوٹی پارلر میں چلے گئے، جبکہ جیل کا قانون ہے کہ وہاں کوئی مرد بغیر اجازت لیے خواتین قیدیوں کے سیکشن میں نہیں جاسکتا تھا۔

صنم جاوید نے مزید بتایا کہ محسن نقوی جب جیل کے بیوٹی پارلر میں گئے تو وہاں فیشل ، مینی کیور اور پیڈی کیور چل رہے تھے، محسن نقوی کو دیکھ کر خواتین نے شور مچا دیا، اس کے بعد محسن نقوی کنفیوژ ہو کر فوراً وہاں سے نکل آئے۔

صنم جاوید نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر یاسمین بھی ہمارے ساتھ قید تھیں، انہوں نے ہم سے کہا ہوا تھا کہ تم نے کوئی جرم نہیں کیا اس لیے جب بھی جیل سے باہر جاؤ تو سر اٹھا کر ہنستے مسکراتے جاؤ۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری تین عیدیں جیل میں گزری ہیں، عید کے دنوں میں خواتین قیدی لہنگوں اور غراروں میں گھوم رہی تھیں، چاند رات پر وہاں قیدیوں کی جانب سے ڈھولکی پر گانے بجائے جاتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری بیرک میں ڈاکٹر یاسمین راشد بھی ہمیں گانے سنایا کرتی تھیں، ان کے گانے سن کر ہم خوب انجوائے کرتے تھے، خواتین قیدی ڈاکٹر یاسمین راشد سے طبی مشورے بھی لیا کرتی تھیں اور کسی بھی قیدی کی طبیعت خراب ہونے پر ڈاکٹر یاسمین راشد ہر وقت حاضر رہتی تھیں۔

More

Comments
1000 characters