سوشل میڈیا پر قومی ائیرلائن ”پی آئی اے“ سے منسوب ایک ویڈیو خوب وائرل ہو رہی ہے، جس کے حوالے سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پائلٹ نے پشاور جانے والی پرواز کو غلطی سے کراچی میں اتار لیا۔ تاہم، ملک کے بڑے نجی ٹی وی سے وابستہ سینئیر صحافی نے اس ویڈیو کی حقیقت بیان کردی ہے۔

ویڈیو میں لوگوں کو لوگوں کو طیارے کے اندر ائیرپورٹ کے سکیورٹی عملے سے بحث کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

سینئیر صحافی طارق ابولحسن نے اس ویڈیو کی حقیقت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ پی آئی اے کی دبئی سے پشاور جانے والی پرواز ”پی کے 284“ نے فنی خرابی کے باعث اتوار کی شب کراچی ایئرپورٹ پر ٹیکنیکل لینڈنگ کی۔

طارق ابولحسن کے مطابق مسافروں کو کئی گھنٹے تک طیارے میں ہی بٹھائے رکھا گیا۔ طیارے سے لاؤنج منتقل نہ کرنے پر مسافروں کا پارہ ہائی ہوگیا اور انہوں نے طیارے میں شدید احتجاج کیا۔ وائرل ویڈیو اسی احتجاج کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کئی گھنٹے گزرنے کے بعد پھر مسافروں کو متبادل پرواز کے ذریعے پشاور روانہ کیا گیا۔

تاہم، محمد احمد نامی ایک پائلٹ جو کہ تصویر سے ویڈیو میں موجود پائلٹ لگ رہے تھے، انہوں نے ان کی پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی تصحیح کی اور بتایا کہ ’دبئی میں پش بیک ٹرک سے ٹکرانے پر طیارے میں فنی خرابی پیدا ہوگئی، پی آئی اے نے اس حصے کا بندوبست کیا جو نجی ایئرلائن کے ذریعے دبئی بھیجا گیا، پائلٹ اپنی ڈیوٹی کی حد 12 گھنٹے تک پہنچ گئے تھے، لیکن ڈی جی سی اے نے انہیں مزید چار گھنٹے ڈیوٹی بڑھانے کی اجازت دے دی جس سے انہیں ہوائی جہاز کو بحال کرنے کے لیے 16 گھنٹے کا وقت لگا۔ عملے کو تبدیل کرنے کے لیے تکنیکی لینڈنگ کی گئی کیونکہ آپریٹنگ عملہ اپنی توسیعی ڈیوٹی کی حد تک پہنچ رہا تھا‘۔

سینئیر صحافی کا کہنا تھا کہ ’ان دنوں پی آئی اے کے طیاروں میں فنی خرابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ فاضل پرزہ جات کی عدم فراہمی کی وجہ سے طیاروں کی مینٹیننس شدید متاثر ہو رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’شعبہ انجینئرنگ کے ذمہ دار افسران کا بتانا ہے کہ پی آئی اے انتظامیہ آمدنی میں اضافے کے باوجود طیاروں کے پرزہ جات نہیں خرید رہی اور بروقت پرزہ جات کی عدم فراہمی کے باعث فلائٹ آپریشن بری طرح متاثر ہے‘۔

طارق ابولحسن نے دعویٰ کیا کہ ’پی آئی اے کی اعلیٰ انتظامیہ کی اسی غفلت کے باعث کئی طیارے گراؤنڈ ہیں، ان دنوں پی آئی اے کے 40 میں سے بمشکل صرف 17 طیارے آپریشن میں ہیں‘۔

طارق ابولحسن نے بتایا کہ ’ان افسران کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کے باعث انتظامیہ طیاروں کیلئے پرزہ جات کی خریداری نہیں کر رہی۔ جبکہ اس معاملے میں سب سے مشکوک کردار شعبہ انجینئرنگ کے سربراہ کا ہے جو کئی برسوں سے اس عہدے پر ہیں اور انہوں نے ایک ایک کر کے شعبہ انجینئرنگ کی ورک شاپس بند کرکے پی آئی اے انجینئرنگ کی صلاحیت کو بہت محدود کر دیا ہے۔ جبکہ طیاروں کیلئے بروقت فاضل پرزہ جات کی خریداری نہ کرنے میں بھی ان ہی کی پالیسی کا دخل ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پی آئی اے کا شعبہ انجینئرنگ خطہ کے ممالک میں سب سے بہترین سمجھا جاتا تھا۔ جہاں طیاروں کے ڈی چیک کرنے سے لے کر انجن کی مکمل مرمت کرنے تک کی صلاحیت موجود تھی۔

More

Comments
1000 characters